آہ وہ "جناب والا” کا تخاطب وہ دل آویز ملفوظات

*استاذوں کااستاذتھا استاذ ہمارا*

سید حسن ذیشان

*فضائے دارالعلوم کی ایک منفرد شخصیت*
آج صبح کی اولین ساعتیں فرح سرور کی فضا کو غم انگیز بنانے والی تھیں جب یہ خبر صاعقہ اثر مادر علمی کی مغموم فضا سے سنی گئی اور ہم خدام تک پہنچی کہ دارالعلوم کے سب سے قدیم ترین استاذ، اکابرو اسلاف کی تابندہ یادگار ،حضرت علامہ قمر الدین صاحب گورکھپوری رحمہ اللہ جوار رحمت میں پہنچ گئےہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
سن کر بے حد دکھ ہوا افسوس ہوا جذبات امنڈ پڑے حضرت کاوہ درس، وہ البیلا انداز ،وہ جناب والا کا منفرد تخاطب ،اور سخت سردیوں کی لمبی راتوں میں اور سخت گرمیوں کی چھوٹی راتوں میں نیند سے بیداری کے بعد ،بعد فجر مسجد قدیم اور مسجد رشید سے گونجنے والی مصلحانہ و بزرگانہ آواز کانوں سے ٹکرانے لگی اور حضرت کا مبارک وپرنور چہرہ یاد آنے لگا آنسوؤں نے حسرت آمیز احساسات کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیے جذبات نے دربار خداوندی میں حضرت کی بلندئی درجات کی دعائیں کیں
حضرت علامہ کی شخصیت خوشہ چینان دارالعلوم کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے زبان و بیان کی شستگی و شائستگی کے ساتھ طلبہ کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اور خلاف سنت عمل پربرجستہ اظہار ناراضگی بلکہ مناسب تادیبی کاروائی اور تھدید آمیز لہجے میں تازیانہء سخن کا نرالا انداز، اکابر کے بے شمار ملفوظات و ارشادات کے جواہر پارے اور فقہی و تحقیقی احادیث میں بھی اصلاحی پہلو کو اخذ کرنا حضرت کا وہ طرہ امتیاز تھا جو دیگر حضرات اساتذہ میں آپ کو ممتاز رکھتا تھا خاص لب و لہجے میں "بعضا بعضا طالب علم” "جناب والا "نماز میں مسلسل کھجاتا رہتا ہے یہ غلط ہے جیسے تعبیرات اور اصلاحی جملوں کا مخصوص انداز حضرت کی شخصیت کو دارالعلوم کی باوقار فضا میں انفرادیت کا حامل بناتاتھا جس کی وجہ سے طلبہ حضرت کی نگہبان نظر سے بچ کر دوسری طرف کو ہو جاتے تھے اور جلدی جلدی نماز کے لیے چلے جاتے تھے دوران درس بھی سوتے ہوئے طالب علم کو کبھی مخصوص انداز میں "اورے درس کے درمیان سورہا ہے کھڑا ہوجا! کا دلچسپ انداز حضرت کے درس کو مخصوص رنگ دیتا تھا آج ایسی شخصیت دارالعلوم کے در و دیوارکو چھوڑ کر رخصت ہوگئ ہے رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ۔
دورہءحدیث میں مسلم شریف ونسائی اور تکمیل علوم و تکمیل تفسیر میں بیضاوی وابن کثیر کا مبارک درس حضرت کے خاص لب و لہجے اور مخصوص انداز بیان کی بنیاد پر ایک نرالی شان رکھتا تھا ہم منتظر رہتے تھے کہ کب حضرت والا دوران درس فرمائیں گے "فرمایا حضرت والا ہردوئی نے! "فرمایا حضرت والا تھانوی نے”! "فرمایا علامہ بلیاوی نے!” "فرمایا میرے استاد حضرت مدنی نے”!اس طرح بے شمار اکابر کی یادیں حضرت کے درس میں تازہ ہوجاتی تھیں اور دیوبندیت کی مکمل ترجمانی ہوتی تھی حضرت کے درس میں مکمل تحقیقی باتوں کے ساتھ بے شمار اکابر کے حالات و ملفوظات بھی آجاتے تھے اورانکو بر موقع آیت و حدیث کی تفسیروتشریح میں ایسے منطبق فرما دیتے تھے لگتا تھا کہ یہی اس کی تشریح ہے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر بھی بارہا ہم نے حضرت سے سنا ہے *ہے دل روشن مثال دیوبند*۔۔۔۔۔۔۔
حضرت کو اپنے اکابر سے اور منہج دارالعلوم سے بے انتہا محبت تھی بڑا اعتماد تھا جس کی خصوصیات و امتیازات کو حضرت ہمیشہ بیان فرمایا کرتے تھے مسجد طیب میں عصر بعد کی مختصر مگر جاندار روحانی اصلاحی مجلس ہوتی تھی جس میں کمالات اشرفیہ وغیرہ پڑھی جاتی تھی پھر حضرت بڑی ہی جامع اور مختصر تشریح فرماتے اسی طرح عصربعد حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کے قدیم مکان کے صحن میں تشریف لاتے تو وہاں بھی آپکے ملفوظات ولطائف سے سماں بندھ جاتا تھا حضرت مدنی بھی محظوظ ہوتے تھے آج دل مغموم ہے ،آنکھیں اشکبار ہیں جذبات بے قابو ہیں اس بزرگ ودرویش صفت، سفید پوش، سفید ریش ، روشن دل ،استاذ کی یادیں تڑپاتی ہیں مگر سوائے دعائے ترحم ومغفرت کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا!اس لئے کہ
*بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں*
*ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں*
اللہ تعالی حضرت والا کو ان کی دینی وعلمی خدمات جلیلہ کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان کو بالخصوص تمام روحانی اولاد واحفاد کو اور جملہ اساتذہء وذمہ داران دارالعلوم کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مادر علمی کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائےآمین ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہم نے ایسے استاذ سے مسلم شریف اور نسائی وبیضاوی پڑھی ہے جنہوں نے بیک وقت حضرت شیخ الاسلام مدنی اور فخر المحدثین علامہ مراد ابادی علیھما الرحمہ سے بخاری پڑھی ہے اور علامہ بلیاوی کے خادم خاص رہے ہیں حضرت ہردوئی کے خلیفہ اور حضرت الہ آبادی کے تربیت یافتہ رہے ہیں آپ دارالعلوم کے کئی موقر اساتذہ کرام کے استاذ محترم رہے ہیں جس پر راسخ عظیم آبادی کے اس شعر میں ترمیم کے ساتھ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ
*شاگرد ہیں ہم "علامہ قمر” کے راسخ*
*استاذوں کا استاذتھا استاذ ہمارا*
آپکی یادیں ہمارے ذہن ودماغ پر ہمیشہ مرتسم رہیں گی اور دینی وعلمی مجالس میں آپکی محترم شخصیت کو ہمیشہ رکھاجائےگا آپ تو رخصت ہوئے مگر آپکی خدمات اور آپکی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔
انھیں چند سطور کے ساتھ استاذ محترم کی تمام خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رب رحیم کی بارگاہ قدس میں دست دعا دراز کرتا ہوں کہ خدائے رحمن آپ کی مرقد کو رحمتوں کی آماجگاہ بنائے اور روز محشر اپنے مقبول بندوں کی صف اول میں جگہ عنایت فرمائے آمین
کفش بردار اکابر
سید حسن ذیشان قادری قاسمی مانوی کرناٹک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے