**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار
یہ صدی ایک ایسے ظلم کی گواہ بنی جس کی شدت و سنگینی تاریخ کے اوراق کو شرمندہ کر گئی۔ ہاں! میں اسے ظلم ہی کہوں گا، کیوں کہ انصاف کے تمام شواہد و دلائل کو پسِ پشت ڈال کر 463 سالہ قدیم بابری مسجد کو غاصبانہ ارادوں نے مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔ اس تاریخی مسجد کو رام جنم بھومی کا نام دے کر ظلم و جبر کے سامراج نے رام مندر کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ لیکن یاد رکھیں! ہم اسے ہمیشہ مسجد مانتے رہے ہیں اور قیامت تک مسجد ہی مانیں گے۔ کسی بھی ظالمانہ طاقت کے غلبے سے مسجد کی حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری تاریخ ہماری آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتی رہے گی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے بلند عدالت نے خود اعتراف کیا:
1. بابری مسجد کو بادشاہ بابر یا اس کے سپہ سالار میر باقی نے 1528 میں تعمیر کرایا تھا۔
2. بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔
3. 1949 میں مسجد میں رام کی مورتی زبردستی رکھی گئی تھی، جو جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف تھا۔
4. 6 دسمبر 1992 کو مسجد کی شہادت ایک غیر قانونی فعل تھا۔
لیکن افسوس! ان تمام اعترافات کے باوجود عدالتِ عظمیٰ نے وقت کے حاکم اور سیاسی دباؤ کے تحت فیصلہ رام مندر کے حق میں سنا دیا۔ اور 5 اگست 2020 کا وہ منحوس دن تاریخ کے ماتھے پر ایک سیاہ داغ بن کر ثبت ہو گیا۔ یہ دن نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی ایک کرب ناک المیہ ہے، جب بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہوا جسے جمہوریت کی مثال سمجھا جاتا ہے، اور جس کی عدالتیں انصاف کی محافظ کہلاتی ہیں۔
لیکن یاد رکھیں! ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ دنیا ظلم کے دوام کے لیے نہیں بنی۔ ہم اس دن کے منتظر ہیں جب یہ زمین دوبارہ اپنے رب کے گھر کے سجدوں سے آباد ہو گی۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی قدرت کسی بھی ظالم طاقت سے بلند ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں ایک بار پھر بابری مسجد کے میناروں کو بلند کریں گی اور اذانوں کی گونج اس زمین کو منور کرے گی۔
”ان شاء اللہ، عدل کے پرچم پھر بلند ہوں گے اور سجدے اپنی گمشدہ زمینوں کو واپس پا لیں گے۔“
بھارت کے برہمنی نظام کے ججوں سے انصاف کی امید کرنا سراب میں پانی تلاشنا ہے۔