سالم ظفر ارریاوی
جب بھی چھ دسمبر کی آمد ہوتی ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے ماہ دسمبر کے آنے سے قبل انٹر نیٹ میں ہر طرف واٹس ایپ، فیسبک، انسٹا گرام، اور دیگر ۔ ایپس میں سنتا ہوں دیکھتا ہوں تو وہ دن یاد آتا ہےجس دن صرف ایک عمارت کا نقصان نہیں کیاگیا بلکہ انصاف قانون اور سیکولر ازم کی بنیادوں کو نقصان پہنچایا گیا، وہ معاملہ کوئی اور نہیں ہے جسے ماہ دسمبر میں یاد کیا جائے بلکہ وہ واقعہ بابری مسجد کا واقعہ ہے جو ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے، جس نے نہ صرف مسلم قوم بلکہ تمام انصاف پسند انسانوں کو صدمے میں مبتلاکیا، اب آتے تاریخ کے آئینے میں، بابری مسجد کو 1528 میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کیا۔ یہ مسجد اودھ (موجودہ ایودھیا) میں واقع تھی اور کئی صدیوں تک مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے ہندو مسلم تقسیم کی سیاست کو ہوا دی، اور 1885 میں پہلی مرتبہ ہندو مہاسبھا کی جانب سے بابری مسجد کے مقام پر دعویٰ کیا گیا۔ اس تنازعہ نے برطانوی حکمرانی کے دوران جنم لیا لیکن آزادی کے بعد بھی جاری رہا،بابری مسجد کی شہادت کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سیاسی مفادات سب سے نمایاں ہیں۔ 1980 کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا۔ ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے رام جنم بھومی تحریک شروع کی گئی، جس کا مقصد تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کیا جائے۔ اس تحریک نے ہندو اکثریت کو جذباتی طور پر مشتعل کیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھایا، بابری مسجد کی شہادت ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ انصاف پسند انسانوں کے لیے بھی ایک عظیم المیہ کی حیثیت رکھتا ہے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند ہندو تنظیموں، بشمول وشو ہندو پریشد (VHP)، بجرنگ دل اور شیو سینا کے کارکنان نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کرتاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا۔اس افسوسناک واقعے نے ہندوستانی معاشرے کے فرقہ وارانہ ماحول کو مزید خراب کر دیا اور ملک کی سیکولر شناخت پر ایک گہرا سوالیہ نشان لگا دیا_
مذکورہ واقعہ کو انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اور بابری مسجد کو شہید کرکے یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کی سیکولر بنیادیں خطرے میں ہیں۔ اس واقعے نے قومی یکجہتی کو توڑتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی اور مسلمانوں کو شدید ذہنی و جسمانی نقصان پہنچایا، اس دن ہزاروں ہندو کارسیوک ایودھیا میں جمع ہوئے، جنہیں سیاسی رہنماؤں نے اکسانے کے بعد بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ پولیس اور انتظامیہ تماشائی بنی رہی، اور مسجد کو چند گھنٹوں میں زمین بوس کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے، جن میں ہزاروں لوگ جان سے گئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، ویسے تو بابری مسجد کا تنازعہ کئی دہائیوں تک عدالتوں میں چلتا رہا جن میں سے چندپیش کی جارہی ہے _
جولائی 2004ء: شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازع مقام پر قومی یادگار کی تعمیر تجویزکی_
اکتوبر2004ء: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ ہوا ۔
نومبر 2004ء: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس ملی _
اکتوبر: 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا، لیکن یہ فیصلہ فریقین کو مطمئن نہ کر سکا۔
دسمبر 2015ء بڑے پیمانے پر تعمیری پتھروں کو بابری مسجد کی زمین پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے بھیجا گیاجو کہ سراسر ظلم کی انتہا ہے_
آخر کار، 10 نومبر 2019 کو، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کرلیے – پھر بھی، ہندوستانی جمہوریت سے انکار کرتے ہوئے، بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا، ظلم کی حد تو یہ رہی کہ سپریم کورٹ نے مکمل زمین ہندو فریق کے حق میں دے دی اور مسلمانوں کو متبادل زمین فراہم کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھا، کیونکہ یہ ان کے تاریخی و مذہبی حقوق کی نفی کرتا ہے، بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہندوستانی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے، جو سیاست کے مذہب میں دخل اندازی اور فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے اثرات کی عکاسی کرتا ہے، بابری مسجد کی شہادت صرف ایک عمارت کا نقصان نہیں تھا بلکہ انصاف، قانون اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیادوں پر ایک گہرا زخم تھا، بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی تاریخ کا ایک ایسا زخم ہے جو آج بھی مندمل نہیں ہوا، یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی مفادات کے لیے مذہب کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سانحے نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کو متاثر کیا بلکہ پورے معاشرے کو فرقہ واریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف، امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے تاکہ ایسے سانحات کا اعادہ نہ ہو_
الغرض: بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انصاف پسند افراد کے دلوں میں غم و غصے کو جنم دیا، یہ سانحہ محض ایک عبادت گاہ کا نقصان نہیں تھا بلکہ انصاف، قانون، اور سیکولر ہندوستان کے دعوے پر ایک ضرب کاری تھی ، اس واقعے نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ سیاسی جماعتوں نے مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور قانونی لڑائیوں کے باوجود مسلمانوں کے حقوق کو پس پشت ڈالا گیا یہ واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ مذہب کو سیاست میں کیسے استعمال کیا گیا، جس سے معاشرتی توازن بگڑ گیا، بابری مسجد کی شہادت نہ صرف ایک المیہ ہے بلکہ یہ یاد دہانی بھی ہے کہ امن، بھائی چارے، اور انصاف کے فروغ کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اس واقعے کا اثر آج بھی محسوس کیا جاتا ہے، اور یہ ایک ایسا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھرے_
سالم ظفر ابن محمد اسرائیل دولت پور ارریہ