دردمندانہ پیغام علماء امت اور ملت اسلامیہ کے نام

از امیر ملت نمونہ اسلاف حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت کا تہم
مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)
بموقعہ: تربیتی و مشاورتی اجلاس رابطہ مدراس اسلامیہ عربیہ بہار
بعنوان: عنوان : تربیتی پروگرام رد شکیلیت و تحفظ ختم نبوت ، بمقام جامعہ مدنیہ، سبل پور، پٹنہ، بہار
تحفظ ختم نبوت ورد شکیلیت کے اس فکر انگیز اور درد آفریں اجلاس کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دین و ایمان خدائے وہاب کی عطا کردہ سب سے بڑی دولت اور ہمارا سب سے عظیم سرمایہ ہے، جس پر ساری دینی و دنیوی کامیابیوں اور سعادتمندیوں کا دارو مدار ہے جسکے بغیر انسان کا کوئی مقام و مرتبہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ لہذا ایسی متاع عزیز کی حفاظت ، اس کی قدر دانی و نگہبانی ہم سب کا اولین فریضہ ہے اگر ایمان کی حفاظت کیلئے ہمیں کا ئنات کی ساری دولت لٹانی پڑے اور ہر طرح کی قربانی دینی پڑے تو ہمارے لئے یہ بہت بڑی سعادت اور بہترین سودا ہو گا۔
بڑے ہی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس خطرناک دور سے ہم گزر رہے ہیں ۔ یہ وہ دور ہے جس میں باطل مختلف شکلوں میں ہماری اسی متاع عزیز کو لوٹنے اور ہمیں ایسی دولت عظمی سے محروم کر نیکی نا پاک کوشش کر رہا ہے۔ اس سے قبل بھی میں نے (مانوی را ئیچور کرناٹک کے ایک اجلاس عام میں اپنا دردمندانہ پیغام دیا تھا جسے آپ حضرات نے اپنے دل کی آواز سمجھ کر بہت حد تک اپنی ذمہ داری کا بھی احساس کیا ، آج پھر اس پیغام کو دہراتے ہوئے مزید زور آوری اور دردمندی کے ساتھ چند گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے آپ حضرات پہلے سے زیادہ اسکی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ملت کے دین وایمان کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے۔
پچھلے چند سالوں سے یہ افسوسناک خبریں مل رہی ہیں کہ ملک کے مختلف صوبوں میں ختم نبوت کے عظیم و بنیادی عقیدے پر ڈاکہ ڈالنے والے مختلف فتنے اور خاص طور پر شکیلیت کا فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے پنجے گاڑ تا نظر آرہا ہے مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ اس فتنے کی زد میں دیندار، سمجھدار قسم کے دینی و علمی گھرانے کے افراد بھی آ رہے ہیں اور بعض دینی و دعوتی جماعتوں سے وابستہ افراد بھی بری طرح اس فتنے کا شکار ہو کر اسکے پر چارک و داعی بنتے نظر آ رہے ہیں العیاذ بالله ‘ ‘ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی ‘ ‘
بہار جیسا صوبہ جہاں بڑے بڑے اساطین علم پیدا ہوئے جنکی بڑی دینی و علمی خدمات ہیں آج ایسا صوبہ شکیلیت کے نرنے میں ہے بلکہ اب تک کی معلومات میں ملک و بیرون ملک میں جہاں کہیں اس فتنے کے سرغنہ قسم کے لوگ پکڑے گئے ان کا تعلق زیادہ تر بہار کے کسی نہ کسی علاقے سے پایا گیا۔
لہذا علماء بہار کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست بہار سے اس بد نما داغ کو ختم کر دیں اور اس کے تعاقب کیلئے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیں۔
اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں کی رپورٹیں بھی ہمارے پاس ہیں جہاں شکیلیت ، گوہر شاہیت اور قادیانیت جیسے ایمان سوز فتنے کھلے عام اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہماری غیرت ایمانی ہمیں یہ آواز دے رہی ہے۔ اینقَصُ الدِّينُ وَانَا حَی
تاج ختم نبوت پر کوئی مکار حملہ کرے اور ہم خاموش بیٹھے رہیں، کوئی نبی رحمت کے ناموس رسالت ﷺ کو مجروح کرنیکی کوشش کرے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے! یہ علماء حق کا بھی شعار نہیں رہا ہے۔ ہمارے کاندھوں پر وراثت نبوی کا بارگراں ہے، ہم رسول اللہﷺ کے نائبین کہلاتے ہیں، دنیا کی آسائشیں سب ختم ہو جانے والی ہیں ہمارے لئے معاش اصل نہیں ہے ہم خدائے واحد کے دین کے علمبردار اور خاتم الانبیاء کی نبوت وشریعت کے پاسدار ہیں۔
ہمارے اکابر نے نہایت کٹھن حالات میں سر سے کفن باندھ کر عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی ہے ہم انھیں کے نام لیوا ہیں بلکہ انھیں کے نام کی روٹیاں توڑتے ہیں لھذا ہمارا جذبہ ایمانی اور غیرت دینی ہمیشہ بیدار اور زندہ رہنا چاہئے۔
بے شک ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر ایمان عطا ہونے کے بعد اسکی حفاظت و تقویت کے اسباب و وسائل اپنانے اور اپنے متعلقین کے ایمان کی فکر کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس کا کل روز محشر ہم سے سوال ہو گا ایمان کے لٹیروں کے پھیل جانے کے بعد کسی علاقے میں یہ کہکر کہ فتنوں کا تذکرہ کرنے سے فتنوں کا پر چار ہو گا اور فتنے بڑھیں گے یہ بڑی نا عاقبت اندیشی اور تساہل و مداہنت کی بات ہوگی اسلئے کہ اس وقت ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ان فتنوں سے محفوظ ہوا گر فتنوں کا ذکر نہ بھی کیا جائے تو عقیدہ ختم نبوت سمجھانا تو ہم سب کی منصبی ذمہ داری ہے اور نبی اکرمﷺ کی پیشین گوئیاں اس لئے نہیں ہوتیں کہ ہم انہیں پڑھ کر تماشائی بنے رہیں کہ یہ تو ہوکر رہے گا بلکہ پیشن گوئیوں کا مقصود ہی یہ ہوتا ہے کہ انکی روشنی میں ہم خود کو اور آنے والی نسلوں کو ان فتنوں سے بچائیں اور ان کے ایمان کی فکر کریں۔ فتنے تو یقینا آئیں گے مگر ہمیں ان فتنوں سے بچانے کے لئے ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمان کی فکر کرنا از حد ضروری ہے۔ یاایھا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نارا میں اسی کا درس دیا گیا ہے!
اس تناظر میں پوری قوت کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ ہم سب اپنے مکاتب و مدارس، اسکول و کالج ، مردو خواتین کے اداروں اور اپنے اپنے میدان عمل میں نیز اپنے گھروں میں بوڑھوں ، جوانوں اور بچوں کے درمیان عقائد کی تعلیم کو خوب عام کریں ، اہل علم کے اور دیندار گھرانوں میں بھی فضائل و آداب کے ساتھ عقائد و ایمانیات کی تعلیم ضرور کی جائے ،حفاظ کرام ائمہ مساجد و علماء کرام کے درمیان تربیتی پروگرام کئے جائیں تا کہ انھیں اپنے عقائد پر مکمل انشراح اور مضبوطی حاصل ہو اور وہ ان فتنوں کا تعاقب کر سکیں ،حالات یہ بتارہے ہیں کہ اب کسی گھرانے یا طبقے کا بظاہر کوئی استثناء مشکل ہو رہا ہے کہ یہ اطمینان کر لیا جائے کہ یہ لوگ فتنوں سے محفوظ ہو جائیں گے دن بہ دن پیش آنے والے حالات نے ہر ایک کیلئے فکرمندی کا درس اور عبرت کا سامان مہیا کیا ہے لہذا آج سے یہ عہد کر کے اٹھیں کہ ہمیں اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کی فکر کرنی ہی ہے اور اسی ایمان پر ہی جینا اور مرنا ہے۔ ان شاء اللہ
میرا یہ پیغام اہل بہار کے لئے خصوصا اور پورے ہندوستان کے لئے عموما بلکہ اس سے آگے بڑھ کر پورے عالم میں جہاں کہیں مسلمان اور خوشہ چینان دار العلوم و وابستگان دیو بند موجود ہیں ان سب کیلئے ہے ،امید ہے آپ حضرات خاتم الانبیاء کے اس عظیم دین کی حفاظت کے لئے پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہونگے، اپنے نبی کا درد اپنے سینوں میں پیدا کریں گے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے علمبردار بنیں گے ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالی ہم سب کی مدد فرمائے اور خاتم الانبیاء علیہ السلام کے دین کا سچا محافظ بنائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے