ازقلم: عبد المجید اسحاق قاسمی
زمانہ، انسانوں کا بنایا ہوا پیمانہ ہے، مگر کچھ حقیقتیں اس کے دائرے سے آزاد ہیں۔ اُن میں ایک زبان ہے، جس نے ماضی کو دیکھا، حال کو تھاما، اور مستقبل کو روشن کیا—عربی زبان۔ آج جب 18 دسمبر کو اقوام متحدہ کے فیصلے کے تحت عربی زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے تاریخ نے وقت کے ہاتھ تھام کر یہ اعتراف کیا ہے کہ عربی ایک زبان نہیں، تہذیب کا ساز ہے، ثقافت کا راز ہے اور ابدیت کا آوازہ ہے۔
عربی زبان کی عظمت کا چراغ اُس دن روشن ہوا جب قرآن کے بامِ فلک سے نازل ہونے والے الفاظ نے اُسے حیات جاوداں بخشی۔ یہ زبان محض لغت کے رنگین الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ آسمانوں اور زمینوں کے درمیان اُڑتے ہوئے فرشتوں کی آواز ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس کے حروف میں صحرا کی وسعتیں، سمندر کی گہرائیاں اور فلک کی وسعتوں کی گونج موجود ہے۔
یہ ایک لمحۂ تاریخی تھا—18 دسمبر 1973ء
جب اقوام متحدہ نے اسے اپنی چھ دفتری زبانوں میں شامل کر لیا۔ ایک ایسا فیصلہ جس نے عربی زبان کو نہ صرف رسمی تسلیم کیا بلکہ اس کی عالمی ثقافتی حیثیت پر مہر لگا دی۔ 2012ء سے ’’عربک ڈے‘‘ کے عنوان سے دنیا عربی کے قصیدے پڑھ رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف زبان کی اہمیت کا اعتراف ہے؟ نہیں، یہ تہذیب کے خزانے کا دروازہ کھولنے کی پہلی دستک ہے۔
عربی کا اعجاز: بقاء سے ترقی کا سفر
دنیا نے بڑی بڑی زبانیں دیکھیں۔ تاریخ کے جھرنوں میں وہ گم ہو گئیں۔ مگر عربی؟ یہ زبان ایسے درخت کی مانند ہے جو کائنات کی جڑوں سے جُڑا ہوا ہے۔ پندرہ سو سال گزر گئے مگر نہ اس کے لفظوں پر گرد پڑی، نہ اس کے اظہار پر زنگ۔ بلکہ وقت نے ہمیشہ اس زبان کو مزید نکھارا۔ کبھی وہ سقراطی محافل میں فکری انقلاب بن کر سامنے آتی ہے، کبھی وہ ابن سینا کے تجرباتی علوم میں روشنی کی کرن بن جاتی ہے، کبھی وہ جاحظ کے قلم سے طنز و مزاح کا انمول شہکار بن کر نکلتی ہے۔
یہ زبان اپنی خوبصورتی میں شاعر کی محبوبہ اور اپنی گہرائی میں فلسفی کی کتاب ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو بیک وقت اعراب کی کشتِ خیال میں نخلستان ہے اور محققین کے لیے افکار کی کھوج ہے۔
مغربی تہذیب کا دھوکا اور عربی کی قیامت خیز بقا
1798ء میں جب نپولین بوناپارٹ نے مصر پر حملہ کیا، تو عرب دنیا پر نئی آزمائش کا در کھلا۔ مغربی فکر کے شور میں کچھ نام نہاد دانشوروں نے یہ باور کرایا کہ عربی زبان اپنے عہد سے پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ اُس کی عظمت کے کنگروں پر سوالیہ نشان تھے، مگر حقیقت کیا تھی؟ عربی زبان نے مشرق و مغرب کے مقابلے میں اپنی بقا ثابت کی۔ مغربی تہذیب کے سایے میں عربی نے اپنے معنی کی تجدید کی۔ الفاظ کا نیا لباس پہنا، مگر شناخت نہیں بدلی۔
یہ زبان آج بھی کائنات کی سب سے بڑی علمی امانت ہے۔ لفظ ’’علم‘‘ سے لے کر ’’فلسفہ‘‘ تک، ’’حکمت‘‘ سے لے کر ’’فنا‘‘ تک، عربی زبان کا ہر حرف اپنے اندر ایک مکمل کائنات ہے۔
عربی زبان: امتِ مسلمہ کا اتحاد
آج دنیا بھر کے 422 ملین افراد عربی کو اپنی قومی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ مگر کیا یہ صرف ایک زبان ہے؟ نہیں، یہ مسلمانوں کا ثقافتی رشتہ ہے، وہ نکتۂ اتحاد ہے جو زمانے کے فاصلے مٹا دیتا ہے۔ ایک مصری، ایک شامی، ایک مراکشی ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی اگر کہیں ’’اللہ اکبر‘‘ پکارتا ہے، تو وہ عربی زبان میں پکارتا ہے۔ یہ زبان دنیا کے ہر مدرسے، ہر مسجد اور ہر دل کی دھڑکن میں زندہ ہے۔
عربی زبان: مستقبل کا اُفق
دورِ جدید میں عربی کے لیے بڑا چیلنج مغربی علوم کی یلغار اور ٹیکنالوجی کی برق رفتاری ہے۔ مگر سلام ہے اُن افراد پر جو عربی زبان کی بنیادوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ جدید سائنسی اصطلاحات ہوں یا سیاسی میدان، عربی زبان نے ہر چیلنج کو قبول کیا اور ثابت کیا کہ آج بھی اس کی گنجائش اُتنی ہی وسیع ہے جتنی پہلے دن تھی۔
عربی، تاریخ کی محفوظ امانت
عربی زبان کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کا حق یہی ہے کہ ہم اسے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ یہ زبان فقط ایک میراث نہیں بلکہ امانت ہے۔ یہ صحرا کی ہواؤں میں چپکے سے آنے والا پیام ہے، یہ کعبے کے صحن میں پڑھی جانے والی دعاؤں کی زبان ہے، یہ وہ ندا ہے جو زمین سے عرشِ معلی تک رسائی رکھتی ہے۔
آئیے! 18 دسمبر کو ہم اس عہد کے ساتھ منائیں کہ عربی زبان کا حق ادا کریں گے۔ کیونکہ عربی کو پڑھنا صرف ایک زبان کا سیکھنا نہیں، یہ اپنی تاریخ کو سینے سے لگانے کے مترادف ہے۔ عربی زبان ہمیشہ زندہ رہے گی، کیونکہ یہ وقت کے ہاتھوں لکھی جانے والی تحریر نہیں، یہ قرآن کی زبان ہے—اور قرآن کبھی مٹ نہیں سکتا!