لفافہ لینے دینے والوں کے لیے ایک نصیحت اور پیغام !

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قاضی بکار بن قتیبہ رح مصر کے مشہور محدث اور بڑے فقیہ گزرے ہیں ،امام جعفر طحاوی رحمہ اللہ کے استاذ ہیں اور انہوں نے شرح معانی الآثار میں متعدد حدیثیں آپ کی سند سے روایت کی ہیں،ان کے زمانے میں احمد بن طولون مصر کے حکمراں تھے اور وہ قاضی بکار سے درس حدیث لینے کے لیے خود ان کی مجلس میں پہنچ جاتے تھے،ان کا دربان پہلے مجلس میں پہنچ کر لوگوں سے کہہ دیتا کہ ،،کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ اٹھے،، اس کے بعد ابن طولون چپکے سے آکر بیٹھ جاتے اور عام طلبہ کی صف میں بیٹھ کر حدیث کا درس لیتے تھے،ایک زمانہ تک ابن طولون اور قاضی بکار رح کے تعلقات بہت خوشگوار رہے اور اس عرصہ میں احمد بن طولون قاضی صاحب کی تنخواہ کے علاؤہ ان کی خدمت میں سالانہ ایک ہزار دینار بطور ہدیہ پیش کیا کرتے تھے ۔
اتفاق سے ایک سیاسی مسئلہ میں قاضی صاحب رح اور احمد بن طولون کا اختلاف ہوگیا ،ابن طولون چاہتے تھے کہ وہ اپنے ولی عہد کو معزول کرکے کسی اور کو ولی عہد بنائیں اور قاضی صاحب رح سے اس کی تصدیق کرائیں ،قاضی صاحب رح اسے درست نہ سمجھتے تھے ،اس لیے انہوں نے انکار کردیا،اس کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ابن طولون نے قاضی صاحب کو قید کردیا ،اور یہ پیغام ان کے پاس بھیجا کہ جتنے دینار آپ کو بطور ہدیہ دئے گئے ہیں وہ سب واپس کیجئے ۔
سالانہ ایک ہزار دینار دینے کا مسئلہ اٹھارہ سال سے جاری تھا،اس لیے مطالبہ یہ تھا کہ اٹھارہ ہزار دینار فورا واپس کئے جائیں ،ابن طولون سمجھتے تھے کہ یہ مطالبہ قاضی صاحب کو زچ کردے گا، لیکن جب پیغام ان کے پاس پہنچا تو قاضی صاحب رح کسی تردد کے بغیر اندر تشریف لے گئے اور گھر 🏠 سے اٹھارہ تھیلیاں نکال لائے، جس میں سے ہر ایک میں ایک ایک ہزار دینار تھے۔ یہ تھیلیاں ابن طولون کے پاس پہنچیں، تو اس نے دیکھا یہ بعینہ اور ہو بہو وہی تھیلیاں ہیں ،جو قاضی صاحب رح کے پاس تھیں ،اور ان کی مہریں تک نہیں ٹوٹی تھیں ،ابن طولون یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قاضی بکار نے ان میں سے ایک تھیلی بھی کھولی نہیں تھی ،بلکہ اسے جوں کا توں محفوظ رکھ لیا تھا ،بعد میں معلوم ہوا کہ قاضی بکار رح نے اس خیال سے انہیں استعمال نہیں کیا تھا کہ امیر سے بلا شبہ اس وقت تعلقات اچھے ہیں ،لیکن کبھی اختلاف پیدا ہوا تو انہیں جوں کا توں لوٹایا جاسکے ،ابن طولون قاضی بکار رح کی بلندئی کردار ،ذہانت و حکمت اور استغنا کی نرالی شان دیکھ کر شرم سے عرق عرق ہوگیا -(پانی پانی ہوگیا)
(النجوم الزاہرة فی اخبار ملوک مصر و القاھرة بحوالہ تراشے ص، 79ـ80)
دوستو!!!
آج بھی موجودہ معاشرہ، سماج اور سوسائٹی میں ابن طولون کا کردار ادا کرنے والے ہزاروں لوگ موجود ہیں، جو چاہتے ہیں کہ دینی خدام، علماء ، اہل علم اور مذھبی قائدین کو ہدیہ اور اکرام و انعام دے کر وقت پر اپنا مقصد پورا کریں اور اپنے مطلب کے لیے انہیں استعمال کریں ،اس لیے علماء اہل علم اور دینی خدمت گزاروں کو چاہیے کہ استغنا، زہد و قناعت والی زندگی کو ترجیح دیں، صبر و عزیمت اور توکل کی راہ کو اپنائیں اور قاضی بکار بن قتیبہ رح جیسی فراست ایمانی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اگر ایسے مفاد پرست اور خود غرض لوگوں کی طرف سے ہدیہ اور اکرام و انعام کبھی ملے، تو انہیں بعینہ محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کریں کہ اگر ایسا وقت آجائے، تو ہوبہو اور بعینہ وہ ہدیہ اور اکرامیہ انہیں واپس کرنا آسان ہو جائے، لیکن اس کے لیے صبر اور مجاہدہ ہمت اور حوصلہ درکار ہے ، مشق اور ٹرینگ و تربیت کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ راہ رخصت کی نہیں عزیمت کی راہ ہے ۔۔۔ امید کہ ہم سب قاضی بکار بن قتیبہ رح کی زندگی کے اس مثالی، عبرت خیز اور نصیحت آمیز واقعہ سے سبق لیں گے اور وقت آنے پر ان دنیا داروں کو منھ کی کھانے اور عرق عرق ہونے پر مجبور کردیں گے ۔۔۔۔۔ بس ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے یہ پیغام رہے کہ

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
آٹھا نہ شیسہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے