آہ!میرے محسن وغم خوار;مفتی ذیشان احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

*آہ! میرا محسن وغم خوار نہیں رہا*

محمد اشرف علی محمد پوری

چار بچے کے قریب نیند سے بیدار ہوا،واٹساپ پر خبر ملی کہ معروف عالم دین مفتی ذیشان احمد صاحب قاسمی منگراواں ناظم اعلی جامعہ عزیزیہ ( سہریا ) نظا م آباد اعظم گڑھ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
پہلے تو یقین نہیں آ یا،لیکن پھر تھوڑی دیر میں بادل ناخواستہ،اس حقیقت کا یقین کرنا پڑا، جس کے بارے قرآن کریم نے سید کائنات کو خطاب کرکے فرمایا:انك ميت وانهم ميتون آپ کی بھی وفات ہوگی اور یہ (آپ کے دشمن بھی ) مریں گے_

سب سے پہلے اہلیہ وبچیوں کو خبر دی،سب کے سب غم واندوہ سے ڈوب گئے؛کیوں کہ مفتی صاحب کو یہ سب اپنے گھر کا ایک فرد سمجھتے تھے،اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرصے بعد میرا دل اورآنکھیں عقل و ارادہ کی بندش سے ایک بار پھر آزاد ہوگئے_

غم میں آنسو بہالینے کی اجازت دے کر ،اللہ رب العزت نے ہم کمزور بندوں پر کس قدر احسان فرمایا ہے،اس کا احساس آج ایک بار پھر ہوا،آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے لخت جگر کے انتقال پر آپ کے رخسار مبارک پر بہتے آنسوؤں کا راز آج ایک بار پھر آشکارا ہوا_

مفتی صاحب ایک مدبر تھے ،مفکر تھے،ذہین وفہیم تھے، سلیم الفکر وسلیم الطبع تھے،بہترین مشیر تھے ،ماہر تعلیم تھے،مصلح وداعی تھے، بے مثال مدرس تھے، مقبول مفید خطیب تھے ،ملت کے غم خوار وغم گسار تھے،خوش مزاج وملنسار تھے، تواضع کا پیکر تھے ،صبر ورضا کے مظہر تھے_

وہ ایک سدا بہار شخصیت کے مالک تھے ،روتے کو ہنسانا،مایوس کو پرامید بنانا،غمزدہ کو مسرت بخشنا آپ کے لئے بہت آسان تھا_

ان کی خدمات پر ان کے شاگردان ومعاصرین کی جانب سے بہت کچھ لکھا جائے گا اور یہ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا حق بھی ہے کہ ان پر لکھا جائے ،ان کو پڑھا جائے،ان سے تحریک لی جائے اور ان کی فکر،عمل اور خدمات کی تقلید کی جائے ،تاہم اس عجالہ میں حضرت مفتی صاحب کے مجھ پر احسانات کا تذکرہ میرے لئے باعث رنج بھی ہے باعث راحت بھی ہے،باعث رنج اس لئے کہ
تمارے ساتھ کا موسم بہت سہانا تھا
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

باعث راحت اس لئے کہ جنبش قلم کے ساتھ آنسوؤں کی بارش،زخم خوردہ دل کے لئے راحت رساں ہوتی ہے_

رولینے سے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا ہے
بارش ہوجائے تو موسم اچھا ہوتا ہے

حضرت مفتی صاحب سے میری آشنائی خیر آباد کے طالب علمی کے زمانے میں ہوئی،آپ اس وقت مدرسہ مفتاح العلوم مئو میں مدرس اور مجلہ "المفتاح” کے مدیر تھے،آپ کی ابتدائی تعلیم ،عربی پنجم تک منبع العلوم خیرآباد میں ہوئی تھی ،میں جب 1998 میں ،مدرسہ مبنع العلوم میں عربی چہارم میں داخل ہوا تو غائبانہ طور پر آپ کا تذکرہ بارہا سنتا رہا ، آپ نے مجھ سے اپنے مجلہ کے لئے کسی مضمون کا مطالبہ کیا اور میں نے ایک مضمون بعنوان ‘بڑھتی آبادی ،گھٹتے وسائل” جسے ماہر قلم استاد گرامی مولانا ضیاء الدین صاحب کی نگرانی میں لکھا تھا ،مولنا کے مشورے سے ارسال کا جو المفتاح میں شائع ہوا ،یہ مفتی صاحب کی وسیع الظرفی تھی کہ ایک طالب کا مضمون اپنے مجلہ میں شائع فرماکر اسے حوصلہ بخشا،پھر دن بدن قربت ورابطے میں اضافہ ہوتا گیا،سن دوہزار میں میں دارالعلوم دیوبند چلا گیا،مفتی صاحب دوسال "مفتاح” میں خدمت انجام دینے کے بعد، جامعہ فیض العلوم شیرواں چلے گئے،یہیں سے مفتی صاحب کی صلاحیت کے جوہر کھلنا شروع ہوئے،تعلیم وتربیت کی جو وہبی اور کسبی صلاحیت آپ میں موجود تھی ،اس کا سب سے پہلا مظہر یہی فیض العلوم تھا ،یہاں کتنے سال رہے مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں، تاہم دوہزار سات میں مفتی صاحب نے فیض العلوم کو خیرآباد کہہ دیا اور نومولود ادارہ جامعہ شیخ الہند انجان شہید کو اپنی جولان گاہ بنایا _

مفتی صاحب کی جگہ عارضی طور پر دو ماہ ،مجھے فیض العلوم پر تدریس کا موقع ملا،آپ کے موجد شاگردوں کی صلاحیت وصلاح کو دیکھ کر پہلی بار اندازہ ہواکہ آپ کو تعلیم تربیت کا کچھ خاص ملکہ عطا ہوا ہے_

دیوبند کی زمانہ طالب علمی میں ،دورہ کے سال میں، حضرت مولنا نعمت اللہ صاحب _اطال اللہ بقاءہ_ نے ایک دینی وعصری تعلیم کی جانب راقم کو متوجہ کیا تو ،ہم نے سالانہ تعطیل میں، وطن آمد کے موقع پر،علاقے کے بڑے علماء(جن میں مفتی صاحب بھی شامل تھے) سے مولنا کی فکر کا تذکرہ کیا توآپ تائید کرنے والوں میں سرفہرست تھے_

شیخ الہند انجان شہید میں آپ صدر مدرس تھے،ناظم اعلی مولنا فرقان بدر قاسمی صاحب نے مفتی صاحب کو باصلاحیت اساتذہ کی ایک انجمن فراہم کی ،خوب سے خوب تر اساتذہ کی تلاش میں مفتی صاحب کا بھی اہم کردار رہا،انجان شہید کے مقبول استاد:مفتی مامون رشید صاحب ارریاوی مفتی صاحب کی طلب پر انجان شہید پہنچے،آپ نے مجھ سے کہا:ایک ایسے استاد کی ضرورت ہے جو طلبہ میں عربی زبان لکھنے ،پڑھنے اور بولنے کا ذوق پیدا کرے، مفتی مامون صاحب میرے مشورے سے وہاں تشرہف لے گئے اور انجان شہید کے مقبول استاد مستقل مقیم ہوگئے ،اساتذہ سے ان کی صلاحیت کے مطابق کام لینا ،ان میں الفت ومحبت قائم رکھنا،طلبہ میں علم و عمل کی رغبت پیدا کرنا ،ایک اہل طالب پر محنت کرکے اسے انکھارنا ،سنوارنا اور سجانا آپ کی طبیعت ثانیہ تھی_

دو ہزار آٹھ سے راقم اپنے علاقے میں مسقل قیام پذیر ہوا،اس وقت ضلع اعظم گڑھ میں رد تقلید کا فتنہ عروج پر تھا ، اگرچہ منکرین تقلید کی تعداد کم تھی ،لیکن وہ وسائل اور جوش سے بھرپور تھے ،گاؤں کا گاؤں اس فتنے سے پریشان تھا،راقم نے اپنے علاقے میں اس فتنے کے سد باب کا ارادہ کیا تو سب سے زیادہ معاون حضرت مفتی صاحب کو پایا ،آپ مجھ سے زیادہ اس تعلق سے فکر مند تھے ،ہم لوگ حسب تقاضا کوئی گاؤں طے کرلیتے،اکثر جمعہ کی صبح اور بسااوقات درمیان ہفتہ متاثرہ گاؤں میں جاتے اور گفتگو کرتے ،الحمد للہ ہرجگہ کامیابی ملی،اگر میرے سامنے کوئی تقاضا آیا اور میں نے مفتی صاحب سے یا مفتی صاحب نے مجھ سے اس تقاضے پر چلنے کو کہا تو طرفین کی جانب سے انکار کی گنجائش نہیں ہوتی ،یہ آپ کے اعتماد اور اخلاص کی بات تھی_

اسی اثناء میں، اعظم شہر کے مضافات میں ایک مسجد میں ہمارے بعض جماعتی نوجوانوں نے اہل اشرفیہ سے مناظرہ طے کرلیا،ہم نے مفتی صاحب کے مشورے سے علماء کی ایک ٹیم تیار کی اور الحمد للہ مکمل کامیابی ملی ، اس وقت اہل مسجد ہی نہیں اہل قریہ بھی صحیح العقیدہ ہیں _

ناچیز کے زریعے قائم کردہ ادارے،(قیام :2004) کی تعمیر ترقی میں مفتی صاحب دل وجان سے شریک رہے،دوہزار دس تک ہمارے یہاں سب کچھ ٹھیک رہا ،پرسکون ماحول میں تعلیم وتعلم کا عمل جاری تھا کہ اچانک مقدرات غالب آئے اور چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر ،آپس میں اختلافات ہوگئے ،دن بدن میرے لئے حالات سنگین ہوتے گئے ؛بالآخر اکابر وعلماء کے مشورے سے قدیم ادارے سے علیحدگی کا فیصلہ کیا،اس فیصلے میں بڑی خیر وبرکت پوشیدہ تھی،جو الحمد للہ آج بھی جاری وساری ہے،مفتی صاحب اس پورے زمانے میں تسلی وڈھارس کا ایک بڑاسامان تھے، دوہزار تیرہ میں راقم کے نئے ادارے :خالد بن ولید کے سنگ بنیاد کا پروگرام تھا،جس میں علامہ بحرالعلوم کے ساتھ صدر جمعیت حضرت مولانا ارشد صاحب مدنی ،وغیرہ بھی تشریف لائے، اس پروگرام میں عوام کو سنبھالنے کے لئے عملہ کی کمی نہیں تھی ،لیکن اکابر علماء کی ایک بڑی تعداد کی خدمت کے لئے،مدارس کے طلبہ کی
معتدبہ تعداد ضرورت تھی ،جو ہمارے یہاں غیر موجود تھی،اللہ تعالی ناظم جامعہ شیخ الہند ،اور مفتی صاحب رح کو جزائے خیر دے کہ یہ حضرات تقریبا چالیس کلومیٹر دور سے اپنے اساتذہ وطلبہ پر مشتمل ایک قافلے کے ساتھ آئے اور خدمت کا حق اداکردیا_

دوہزار پندرہ میں آپ نے موضع ،سہریا میں جامعہ عزیزیہ کی بناد ڈالی،آپنکا حوصلہ تھا کہ ایک چھوٹے سے زیر تعمیر مکان میں، محفل سجادی، شعبہ حفظ کے ساتھ عربی سوم تک جماعت قائم ہوگئی،سابقہ مدارس کی طرح یہاں بھی "دوکان” کےبغیر کاروبار اسی شان کے ساتھ جاری ہوگیا،میرے یہاں عربی جماعت اس وقت نہیں تھی،مجھے تدریس سے جڑے رہنے کا شوق ہمیشہ رہا ہے ،مفتی صاحب نے میں نے یا آپ نے مجھ سے کچھ گھنٹیاں پڑھانے کا ذکر کیا ،میں نے تقریبا ڈیڑھ سال جامعہ عزیزیہ میں اعزازی طور پڑھایا،اس درمیان آپ کے اخلاق حسنہ کا بہت قریب سے مشاہدہ ہوا ،میں اپ کا(اعزازی ہی سہی )ملازم تھا ؛ لیکن کبھی آپ نے کوئی سخت بات نہیں کی ،کبھی کسی بات پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا ،حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ” میرا سارا کام اپنے مرضی کے مطابق ہوتا تھا”

بارہا ایسا ہوا کہ کسی جلسے آپ کو مدعو کیا جاتا وہ مجھے ساتھ لینا پسند کرتے تھے اور مجھے مدعو کیا جاتا تو میں آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔منتظمین کو نام ہم ہی لوگ پیش کردہتے کہ فلاں کو بھی بلالو،مقصد یہ ہوتا کہ اگر دونوں میں کوئی ایک مشغول ہوجائے تو دوسرا اس کی جگہ پر کردے ،اور اگر ضرورت ہوتو دونوں، ضرورت نہ ہوتو کوئی ایک بات کرلے _

ادارہ خالد بن ولید میں بنات کے لئے حفظ کا شعبہ قائم ہے ،آپ کی تقریبا تمام بچیاں پہلے حافظات اور پھر معلمات بنیں،آپ کے گھر کا ماحول خالص علمی،دینی اور اطاعت وفرماں داری کا ماحول ہے ،اس میں مفتی صاحب کی محنت کے ساتھ مفتاح العلوم مئو کے سابق شیخ الحدیث مولنا شمیم صاحب کی برکت وتربیت کا بھی کا بھی حصہ ہے کہ مفتی صاحب حضرت شیخ کے داماد تھے،اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ میں کبھی ان کی بچوں سے ہمیں ،خواہ وہ متعلم رہے ہوں یا معلم کوئی شکایت نہیں ہوئی ، اس تعلق سے مفتی صاحب کا رویہ بھی ہمیشہ معاونت کا رہا ہے_

میرے اوپر مفتی صاحب کے ذاتی احسانات بھی بے شمار ہیں، وہ فقر میں بھی غنی تھے اور تنگی میں بھی سخی تھے،جب کبھی مجھے ذاتی طور پر کچھ قرض وغیری کی ضرورت پیش آتی ،نگاہ اولین مفتی صاحب کی طرف اٹھتی، آپ نے کبھی مایوس نہیں کیا،ایسا بھی محسوس ہوا کہ بسا اوقات کسی اور سے لے کر دے دیا ہو،یہ سلسلہ ابھی تک جاری تھا_

چند دن پہلے ،آپ کو فون آیا کہ استاد گرامی مولنا افضل صاحب کیموری جامعہ عزیریہ تشریف لاریے ہیں، آپ بھی آجائیں کھانا ساتھ کھالیں ،جدید مدرسہ میں دعاء ہوگی ،اس میں شرکت کرلیں ،میں پہنچا تو دعاء ہوچکی تھی ،کھانے میں شریک ہوا،،پھر مجھے اپنے نئے مدرسے لے گئے،وہاں سب کچھ دکھایا،بتایا اور
شوال میں نئی جگہ منتقل ہونے کے عزم کا اظہار کیا،باقی شدہ ضروريات کی تکمیل بالخصوص جنگلے ،دروازے کے لئے دعا کی گئی ،چند دن پہلے اپ کا فون آیا کہ الحمد للہ جنگلے،دروازے کا انتظام اللہ کی خصوصی رحمت سے ہوگیا ہے ،محض اس خوش خبری کے لئے فون کیا تھا _

دوروز قبل فون آیا کہ چھ نومبر کو بچی کا نکاح ہے ،مجلس نکاح میں شرکت باعث مسرت ہوگی،کیا خبر تھی کہ اس مجلس مسرت سے قبل ایک مجلس غم میں بھی شرکت کرنی ہوگی_

یقینا یہ غم مفتی صاحب کے اہل خانہ کے لئے، جامعہ عزیہ کے طلبہ واساتذہ کے لئے،مفتی صاحب کےاساتذہ ،وشاگردان کے لئے،دوست احباب کے لئے اور بہت سارے خواص وعوام کے ایک بڑاصدمہ ہے ،لیکن ہم اس موقع پر اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے سینے سے لگائے، صبر کریں گے اور آنکھوں سے جاری آنسو اور دل کے درد کے باوجود ہم اپنی زبان سے وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے اور جس کی تعلیم ہمیں خود مفتی صاحب ہمیشہ دیتے رہے_

انا لله وانا اليه راجعون

بے شک ہم سب اللہ کی ملکیت وامانت ہیں اور ہم سب کو یکے بعد دیگرے اسی کے حضور پہنچنا ہے_

محمد اشرف علی محمد پور اعظم گڑھ
30/10/2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے