اصلاح کا سفر
(مشعل راہ ۔ 07)
انسانی زندگی کا سفر ایک مسلسل عمل ہے جو خود شناسی، خود احتسابی، اور اصلاح کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ اصلاح کا عمل زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کا ذریعہ ہے، اور کامیابی کا راز اپنی غلطیوں کو پہچان کر انہیں درست کرنے میں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنفَعُ ٱلْمُؤْمِنِينَ” (الذاريات: 55)۔ یہ آیت ہمیں یاد دہانی کے ذریعے اصلاح کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتی ہے، جو ترقی کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔
اس تناظر میں، ایک دلچسپ واقعہ قابل ذکر ہے جو کل میرے دوست جسیم علیمیؔ نے سنایا۔ ایک ماہر آرٹسٹ، جو مجسمہ سازی میں مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے بیٹے کو بھی اسی فن میں تربیت دی۔ وقت کے ساتھ، بیٹے کے بنائے ہوئے مجسموں کی قیمت والد کے مجسموں سے زیادہ ہونے لگی۔ ایک دن بیٹے نے اپنے والد سے کہا: "میرے بنائے ہوئے مجسمے کی قیمت آپ سے زیادہ ہے، پھر بھی آپ میرے فن میں خامیاں کیوں نکالتے ہیں؟”
والد نے دھیرے دھیرے غلطیوں کی نشاندہی کرنا چھوڑ دیا۔ مگر وقت گزرتے ہی بیٹے کے فن میں زوال آنے لگا۔ تو والد نے بیٹے کو سمجھایا کہ "تم جو مجسمے بناتے تھے، ان کی خامیاں ہماری نشاندہی کی وجہ سے ہی دور ہو رہی تھیں۔” یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ترقی کے لیے اپنی خامیوں کو جاننا اور انہیں درست کرنا لازمی ہے، ورنہ آگے بڑھنے کا سفر رک جاتا ہے۔
ہمیں ان لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ہماری خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ وہی ہمیں حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ سقراط کا قول ہے: "خود کو جاننے کے لیے اپنی خامیوں کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔” یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اپنی خامیوں کا ادراک کرنا اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ زندگی میں خود احتسابی وہ طاقت ہے جو ہمیں ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں اصلاح کی روشنی کو قبول کرنا چاہیے اور ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو ہماری کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی اصلاح وہی ہے جو ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے قبول کریں۔ کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو پہچانیں اور ان پر قابو پائیں۔ اگر ہم اس اصلاح کی روشنی کو اپنائیں تو ہم خود کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے بھی ایک بہترین مثال قائم کر سکتے ہیں۔ یہ اصلاح کا سفر ہمیں اپنی ذات کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی بہتری کی طرف بھی لے جائے گا، جو ہماری اور ہمارے معاشرے کی بھلائی کا ضامن ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی اصلاح کرتا ہے تو اس سے ہمیں وقتی طور پر تکلیف محسوس ہوتی ہے، اور بسا اوقات مصلح کو ہم اپنا دشمن سمجھنے لگ جاتے ہیں، مگر نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علیؓ کا یہ قول ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے: "جو شخص تمہیں تمہاری خامیوں کی طرف اشارہ کرے، وہ تمہارا حقیقی دوست ہے۔”
تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
24 اکتوبر 2024