القاب کی حقیقت

مشعل راہ ۔ 11

انسان کی فطرت میں عزت اور عظمت کی خواہش پنہاں ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے عزت دی جائے، اس کے مقام کو سراہا جائے اور اسے بلند القاب سے نوازا جائے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ القاب حقیقت میں انسان کی عظمت کو بڑھا دیتے ہیں، یا یہ محض ایک ظاہری زینت بن کر رہ جاتے ہیں؟ اس موضوع پر اسلام کی تعلیمات ہمارے سامنے ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہیں، جو ہمیں حقیقی عزت اور عظمت کا معیار سمجھاتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: "اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ اَتْقٰىكُمْ” (الحجرات: 49)۔ یعنی اللّٰہ کے نزدیک عزت اور بڑائی کا معیار دنیاوی القاب نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے واضح کر دیا ہے کہ حقیقی معیار وہ ہے جو انسان کو اللّٰہ کے قریب لے جائے، اور یہ معیار تقویٰ اور اللّٰہ کی اطاعت ہے، نہ کہ ظاہری القاب اور عہدے۔

رسول اللّٰہ ﷺ کی زندگی اس اصول کی عملی مثال ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ظاہری لقب یا عظمت کا مطالبہ نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو بھی یہ تعلیم دی کہ دنیاوی رتبے اور القاب کو اپنا مقصد نہ بنائیں۔ خلفائے راشدین کی زندگیوں میں بھی ہمیں یہی اصول نظر آتا ہے، ان کی عظمت ان کے اعمال میں پوشیدہ تھی، نہ کہ کسی لقب میں۔ مگر آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ القاب کا چلن ایک فخر اور حیثیت کا معیار بن چکا ہے۔ بسا اوقات ہمیں ایسے القاب سننے کو ملتے ہیں جو حقیقت سے بعید ہوتے ہیں جیسے "شیخ العصر” یا "بحر العلوم” وغیرہ۔ ان القاب کا استعمال انسان کو اپنی اصل حقیقت سے دور کر دیتا ہے اور اس میں ایک مصنوعی عظمت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ القاب اکثر اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ انسان اپنی حقیقی کمزوریوں کو نظرانداز کر دیتا ہے اور خود کو کامل تصور کرنے لگتا ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: "وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ” (الحج: 30) یعنی جھوٹ سے بچو۔ القاب کی غیرضروری بڑھا چڑھا کر استعمال کرنا ایک طرح کا قول زور ہے، کیونکہ یہ حقیقت سے زیادہ ظاہری بناوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ جب انسان کو غیر مستحق القاب دیے جاتے ہیں تو یہ ایک قسم کا دھوکہ ہوتا ہے، اور اسلام ایسے دھوکے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف” (صحیح بخاری: 6094)۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جھوٹ ہر صورت میں نقصان دہ ہے اور انسان کو حقیقی راستے سے بھٹکاتا ہے۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانی عظمت کا معیار القاب میں نہیں بلکہ اس کے اخلاق، کردار اور اعمال میں ہے۔ کسی کا حقیقی مرتبہ اس کے تقویٰ، انکساری، اور اللّٰہ کے ساتھ تعلق میں ہے۔ اسلام کی نظر میں کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی زندگی کو خدمت خلق اور رضائے الٰہی کے لیے وقف کر دے، نہ کہ وہ جو ظاہری القاب اور عظمت کا متلاشی ہو۔

اگر ہم نئی نسل کو سچائی اور انکساری کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں ایسی تربیت شامل کرنی ہوگی جو نوجوانوں کو ان کی اصل حقیقت سے روشناس کرائے اور یہ سکھائے کہ عظمت کا حقیقی معیار صرف اللّٰہ کی رضا میں ہے۔ جب انسان اپنے عمل اور نیت کو اللّٰہ کی رضا کے لیے خالص کرتا ہے، تو وہ حقیقتاً عظیم ہو جاتا ہے، اور یہی وہ عظمت ہے جسے کوئی دنیاوی لقب چھین نہیں سکتا۔

تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
28 اکتوبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے