بچوں کی فطری تربیت

مشعل راہ ۔ 10

بچوں کی تربیت ایک لطیف اور فطری عمل ہے، جو زندگی کے ہر لمحے میں نیا سبق سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں بچوں کی شخصیت کا ارتقاء بتدریج ہوتا ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی بچوں کی نافرمانی والدین اور اساتذہ کے لیے باعثِ تشویش ہو سکتی ہے، مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ ان کی رہنمائی محبت اور شفقت سے کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو پہچان کر درست سمت میں بڑھ سکیں۔

خدا نے ہمیں بچوں کی فطری تربیت کے لیے بنایا ہے، جیسے قرآن میں ارشاد ہے، "اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے” (النساء: 28)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی فطرت میں کمزوری اور غلطی کی گنجائش ہے۔ جب رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے” (صحیح بخاری: 1358)، تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے پیدائشی طور پر ایک پاکیزہ فطرت کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں۔ ہمیں ان کی فطرت کی نشوونما کے لیے ان کی مدد کرنی چاہیے اور انہیں قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔

والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ بچوں کی فطری صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے سوالات کو سنیں اور مناسب جواب دیں۔ بچوں کا تجسس اور سوالات ان کی دنیا کو جاننے اور سمجھنے کا ایک زندہ عمل ہے۔ ان سوالات کا جواب دینا ان کے ذہنی ارتقاء کو بڑھاوا دیتا ہے اور انہیں مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فطری عمل ان کی شخصیت کو نکھارنے اور ان کے اندر مثبت تبدیلیاں لانے میں مدد دیتا ہے۔

اس مقام پر ہمیں غصہ اور بچوں پر اپنی فکر تھوپنے کے بجائے انہیں ان کی فطری سوچ اور راستہ تلاش کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اے پی جے عبدالکلام نے اپنی کتاب "پرواز” میں اس بات کو یوں بیان کیا ہے: "تمہارے بچے تمہارے بچے نہیں ہیں۔ یہ خود زندگی کی اپنی آرزو کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ یہ تمہارے ذریعے آتے ہیں مگر تم سے نہیں ہیں۔ تم انہیں اپنی محبت تو دے سکتے ہو مگر اپنے خیالات نہیں، کیونکہ ان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔”

خیال رہے کہ بچوں کو اس سفر میں تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی تربیت میں ہمارا رویہ ایک شفیق دوست کا ہونا چاہیے، نہ کہ ایک حاکم کا۔ ہمیں بچوں کے ساتھ شفقت، صبر، اور محبت سے پیش آنا چاہیے تاکہ وہ اپنی فطرت کے مطابق پروان چڑھ سکیں۔ ان کی رہنمائی میں نرمی اور حکمت کا عمل دخل ہونا چاہیے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو انہیں ایک کامیاب انسان بنانے میں مدد دیتا ہے، اور ان کی زندگی میں روشنی اور رہنمائی کا باعث بنتا ہے۔ اللّٰہ ہمیں توفیق دے کہ ہم بچوں کی تربیت کو ایک مثبت تجربہ بنائیں اور ان کے لیے زندگی میں صحیح راستہ فراہم کریں۔

تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار ۔ 374
27 اکتوبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے