بڑےبھائی مولاناعبدالاحدصاحبؒ کی زندگی کا روشن سفر

بڑےبھائی مولاناعبدالاحدصاحبؒ کی زندگی کا روشن سفر

**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار

اسلامی تعلیمات میں خاندان کے رشتوں کی اہمیت اور ان کے حقوق کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ والدین کے بعد خاندان میں بڑے بھائی کا مقام کسی حد تک والد کے مشابہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "حق کبیر الإخوة علی صغیرہم کحق الوالد علی ولدہ” (مراسیل أبي داوٴد، مشکاة شریف)۔
اس حدیث میں بڑے بھائی کے حقوق اور اس کی ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے۔ چھوٹے بھائیوں کو چاہیے کہ وہ بڑے بھائی کا ادب و احترام کریں، ان سے رابطہ قائم رکھیں، ان کی غلطیوں کو معاف کریں، اور حکمت و تدبیر سے ان کی اصلاح کریں۔ ان کے لیے دعا کرنا، ان کے جائز مشوروں پر عمل کرنا، اور ان کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح، والدین کے انتقال کے بعد بڑے بھائی کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ بڑے بھائی کو چاہیے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے لیے شفقت و محبت کا مظاہرہ کریں، ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں، اور انہیں دینی، علمی، اور اصلاحی رہنمائی فراہم کریں۔

میرے بڑے بھائی کی زندگی ان تعلیمات کا جیتا جاگتا عملی نمونہ تھی جو بڑے بھائی کے شفیق کردار کو واضح کرتی ہیں۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے لیے ایک مہربان اور مخلص سرپرست تھے، جو ہر لمحہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ والد محترم کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کے لیے نہ صرف والد کا کردار ادا کیا بلکہ اپنی شفقت، محبت اور حکمت سے ان کے دلوں میں ایک خاص مقام پیدا کیا۔ ان کی دعاؤں میں اخلاص جھلکتا، ان کے مشوروں میں بصیرت نمایاں ہوتی، اور ان کی تربیتی کاوشوں میں حقیقی محبت کا رنگ غالب رہتا۔ وہ صرف ایک بڑے بھائی ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں قابل اعتماد مشیر بھی تھے۔

بھائی جان کی پیدائش(06/01/1977)
کونانیہال سنہسی (ضلع کھگڑیا) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم کے قائم کردہ مدرسہ اسعد العلوم سنہسی اور مدرسہ حسینیہ چلمل میں حاصل کی۔ اس کے بعد جامع العلوم پٹکا پور کانپور اور پھر رائے پور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، جہاں انہوں نے مولانا عبدالقیوم صاحب رحمۃاللہ علیہ،مولانا سلمان بجنوری صاحب حفظہ اللہ اور مولانا احمد دامت فیوضہم جیسے اساتذہ سے فارسی سے عربی دوم تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں عربی پنجم تک تعلیم حاصل کی۔

اگرچہ کسی وجہ سے بھائی صاحب کا رسمی تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا، لیکن وہ نحو و صرف کے علوم میں غیرمعمولی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا شوقِ علم اور خوداعتمادی ان کی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

تعلیمی مرحلہ منقطع ہونےبعدانہوں نے دہلی میں کشیدہ کاری کا کام سیکھا اور سالوں تک اسی پیشے سے منسلک رہے۔ لیکن 1999 میں شادی کے بعد، والد محترم کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ ارشد العلوم چلمل کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ نورانی قاعدہ،ناظرہ قرآن کریم پڑھانےاور تحریری مشق لکھا نے میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد ہیں، جو دین متین کی خدمت انجام دینے والے علماء میں شامل ہیں، جیسے:
مولانا اسعد قاسمی (پٹنہ)مولانا اسجد قاسمی (پورنیہ)
مفتی شاہد صاحب (سنگھول)مولانا افتخار قاسمی (سنگھول)مولانا عبدالمجید اسحاق قاسمی (چلمل)
حافظ فرقان (رزاق پور)مفتی شمش الدین صاحب (کیوال)مفتی مختار صاحب (کیوال)
مفتی سلمان مظاہری(چلمل) مولانا مکرم (چلمل)اس کےعلاوہ دیگر شاگردائیں بھی ہیں۔
بھائی صاحب کی شخصیت تدریس کے میدان میں نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ تقریر و خطابت کے ہنر میں بھی بے مثال تھی۔ ان کی گفتگو دلوں کو چھو لینے والی، فکر کو جھنجھوڑنے والی اور اصلاحی پہلوؤں سے بھرپور ہوتی تھی۔ سامعین ان کی باتوں کو نہ صرف غور سے سنتے بلکہ ان سے متاثر ہو کر اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے۔ ان کا طرزِ بیان ایسا دلکش تھا کہ ہر لفظ سامعین کے دلوں پر نقش ہوجاتا، اور ان کی گفتار میں بصیرت و دانائی کا رنگ جھلکتا رہتا۔
مدرسے میں تدریسی خدمات کی تکمیل کے بعد انہوں نے اپنے علمی اور دینی سفر کو مختلف مقامات پر امامت و خطابت کے ذریعے جاری رکھا۔ ان کی تقرری کا سلسلہ سیوری منجھول، کوریا ہیبت پور، کلی موہن پور، اور دانیال پور تیھگرا جیسے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان مقامات پر انہوں نے اپنی خطابت اور امامت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں دین کی روشنی پہنچائی، ان کے قلوب کو منور کیا اور دینی تعلیمات کے فروغ میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ہر جگہ ان کا اندازِ خطابت لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا اور ان کی شخصیت ایک اچھے انسان کے طور پر یاد کی جاتی۔

8 جنوری 2022 کی یخ بستہ رات، وہ دل دہلا دینے والا لمحہ تھا جب بھائی صاحب کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ ان کی مظلومانہ شہادت نے خاندان کے ہر فرد اور علاقے کے ہر دل کو غم کی گہرائیوں میں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک شفیق بھائی، رہنما اور باوقار شخصیت کے اچانک جدا ہو جانے کا درد ناقابلِ بیان ہے۔ وہ اپنے پیچھے ایک بوڑھی ماں، چھ بھائی، چار صاحبزادے، دو صاحبزادیاں، اور ایک بیوہ کو سوگوار چھوڑ گئے، جن کی آنکھوں میں ان کی یادیں ہمیشہ اشک بن کر رہتی ہیں۔ ان کی زندگی کی قربانی آج بھی علاقے کے دلوں میں گونجتی ہے، ان کے تدریسی اور تنظیمی کارنامے ہر فرد کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی شہادت نے ایسا خلا چھوڑا ہے جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے، لیکن ان کی مثالی شخصیت کا نور ہمیشہ قلوب کو منور کرتا رہے گا، اور ان کی یاد ہر دل میں احترام اور محبت کے ساتھ زندہ رہے گی۔

9 جنوری کو مدرسہ حسینیہ چلمل کے وسیع احاطے میں بعدنمازظہر مولانا مرغوب الرحمن صاحب حفظہ اللہ (صدر رابطہ مدارسِ اسلامیہ عربیہ بہار) نے بھائی صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازے میں علاقے اور قرب و جوار سے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی، جن میں علماء، حفاظ، ائمہ اور معززین کی ایک بڑی جماعت شامل تھی۔ یہ منظر غم اور عقیدت کا حسین امتزاج تھا، جہاں ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل صدمے سے بوجھل۔ پرنم آنکھوں اور دل گرفتہ جذبات کے ساتھ بھائی صاحب کو سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے جنازے میں ہزاروں محبین ،منسلکین کی بے مثال حاضری نہ صرف ان کی عظیم شخصیت کی گواہی تھی بلکہ ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں موجود محبت اور عقیدت کا مظہر بھی۔

بھائی صاحب کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کی انتھک جدوجہد کی گئی، جو صبر و عزم کی ایک لازوال داستان ہے۔ اس مہم میں حضرت مولانا ناظم صاحب (ناظم جمعیت علماء بہار) کی قیادت اور بے پناہ کوششیں نمایاں تھیں، جنہوں نے پورے حوصلے کے ساتھ انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا مقابلہ کیا۔ ان کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں پولیس تقریباً بیس دن بعد قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی، جس سے مظلوموں کے دلوں میں امید کی ایک شمع روشن ہوئی۔ لیکن افسوس، قانونی پیچیدگیوں، مضبوط گواہوں کی عدم موجودگی اور انصاف کے نظام کی کمزوریوں کے سبب، یہ امید دو سال بعد مایوسی میں بدل گئی، اور قاتل رہا ہو گئے۔ یہ المناک حقیقت نہ صرف نظام عدل کی ناکامی کو عیاں کرتی ہے بلکہ خاندان اور علاقے کے دلوں پر ایسا زخم چھوڑ گئی جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود، بھائی صاحب کی مظلومانہ شہادت ظلم کے خلاف جدوجہد کی ایک ایسی مشعل ہے جو ہمیشہ دلوں کو روشن اور عزم کو مستحکم کرتی رہے گی۔

بھائی جان کی زندگی اسلامی تعلیمات، خلوص، محبت، اور قربانی کی ایک درخشاں تصویر تھی، جو ہر پہلو سے ایمان، عمل اور اخلاق کی عملی تفسیر نظر آتی تھی۔ ان کی مظلومانہ شہادت نے نہ صرف ان کے لیے ابدی کامیابی کا دروازہ کھولا بلکہ ان کے خاندان کے لیے فخر اور سربلندی کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ ان کی حیاتِ طیبہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے خاندان اور معاشرے میں خیر خواہی، محبت، اور خدمت کے جذبات کو فروغ دیں، تاکہ ایک صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں آئے، جو اسلامی اقدار کا آئینہ دار ہو۔
ہم دست بہ دعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو شرفِ قبولیت بخشے، ان کے درجات کو جنت الفردوس میں بلند کرے، اور ان کے قاتلوں کو دنیا و آخرت میں نشانِ عبرت بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے