تبدیلی کا آغآز

مشعل راہ 08
ماہر تعلیم سلمان آصف صدیقی صاحب کا قول ہے: "اگر کسی انسان کے اندر امت کی اصلاح کی فکر اپنی اصلاح کی فکر سے زیادہ ہو جائے تو معاشرے میں فساد پیدا ہوتا ہے۔” یہ گہری بصیرت ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ حقیقی اور پائیدار تبدیلی کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ اسلام کی بنیاد ہی اپنی اصلاح پر ہے، جس کا درس ہمیں قرآن و سنت میں بار بار دیا گیا ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ” (المائدہ: 105) یعنی "اے ایمان والو! اپنی ذات کی حفاظت کرو۔” اس آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اپنی اصلاح کا عمل نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کے لیے بھی اہم ہے۔ حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے: "تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو۔” (ابنِ ماجہ: 1977) اس حدیث میں یہ پیغام ہے کہ اپنی اصلاح کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے، اور ہمیں خود کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ ہم ایک مثالی رہنما بن سکیں۔

آج ہمارے معاشرتی مسائل کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات میں تبدیلی لائے بغیر دوسروں کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی مثال لیجیے، جو اپنے بچوں کو بہترین دیکھنا چاہتے ہیں، مگر خود اپنی زندگی میں ان خصوصیات کو شامل نہیں کرتے۔ قرآن مجید ہمیں تنبیہ کرتا ہے: "كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ” (الصف: 3) یعنی "اللّٰہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہ کرو۔”

سوشل لرننگ تھیوری (Social Learning Theory)
کی روشنی میں دیکھا جائے تو بچے اپنے والدین اور ماحول سے سیکھتے ہیں۔ اگر والدین دینداری، علم دوستی اور اخلاقی اقدار کو اپناتے ہیں تو ان کے بچے بھی ان خوبیوں کو اپنائیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والا اور لوہار۔ مشک بیچنے والے کے پاس رہنے سے آپ کو خوشبو ملے گی، چاہے آپ کچھ خریدیں یا نہ خریدیں۔ لیکن لوہار کی بھٹی سے آپ کو جھلسنے یا بدبو کا سامنا کرنا پڑے گا۔” (بخاری: 2101) اس حدیث میں اچھی صحبت اور ماحول کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

لہذا، اصلاح کی ابتدا ہمیشہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے۔ جب ہم خود اپنی اصلاح کرتے ہیں، تو یہ مثبت عمل ہمارے اردگرد کے لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں دیندار اور علم دوست ہوں تو ہمیں خود کو ان خصوصیات سے مزین کرنا ہوگا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنی اصلاح کی، اس نے پہلے اپنی ذات میں ان خصوصیات کو پیدا کیا جو وہ معاشرے میں دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے معاشرت میں حقیقی تبدیلی اور دیرپا اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، فرد کی اصلاح کے بغیر معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔

تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے