مفتی محمد نظر الباری الندوی
امام وخطیب مرکزی جامع مسجد پالی ، وجنرل سیکریٹری جمعیت علماء ضلع دربھنگہ .
ہمارے ملک عزیز بھارت میں تحفظ شریعت سے متعلق عام مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کےلئے کانفرنسیں ، جلسے جلوس، اجتماعات اور ہرممکن کوششیں جاری ہیں ، اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن عام مسلمانوں کی عملی زندگی کے زمینی حقائق ، طورطریقے اور رہن سہن تو نہایت ہی افسوس ناک ، شرمناک اور تکلیف دِہ ہیں ، تقریبا زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان شرعی احکامات سے دور ہی نہیں بلکہ کوسوں دور ہیں ، اور ایسے مسلمان بھی معاشرے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جو شریعت کے بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں ،اوران کی توجہ بالکل اس طرف نہیں جاتی کہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات سے جوڑیں، اور شرعی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں ، وہ صرف کھانے پینے، اور سامان راحت جمع کرنے ، اور معیار زندگی بہتر سے بہتر بنانے میں مگن ہیں ، انہیں شریعت ، اسلام اور مسلمانوں کے حال ومستقبل سے متعلق کوئی غرض اور واسطہ نہیں ، وہ زندگی کے اصلی مقصد سے بے خبر ہیں ،اور سوچنے سمجھنے کےلئے ان کے پاس وقت نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اس کام کو اہم سمجھ رہے ہیں ،
ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے سروں پر ٹوپیاں بھی عیدین ہی میں نظر آتیں ہیں ، پنجوقتہ نمازیں جو فرض عین ہیں ، مسلمانوں کی اکثریت اس سے غافل ہے، بعض مساجد قریہ اور دیہاتوں میں ایسی بھی ہیں، جہاں صرف ایک امام ، وہی مؤذن ، وہی مقتدی ، اور بس ۔۔حالانکہ محلے مسلمانوں سے بھرے ہیں ، حقوق اللہ وحقوق العباد میں کوتاہیاں عام ہیں ،
قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے معانی و مطالب پر غوروفکر ، دین کی ضروری باتوں سے واقفیت کی طلب ، تو دور کی بات ہے ، عام مسلم نوجوان غیروں کی نقالی اپنےلئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں ، رات میں دیر سے سونا، اور صبح تأخیر سے اٹھنا، ایک فیشن سا بن گیاہے ، ایسے نوجوانوں کو نہ محلے کی مسجدیں نظر آتی ہیں ، اور نہ ہی علماء کرام کی مجلسیں ، اور نہ ہی اپنے آپ کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی فکر ہے،
چھوٹے چھوٹے ننھے منے بچوں کی تعلیم و تربیت کا یہ عالم ہے کہ ان میں اکثر کے والدین و سرپرست کم عمری ہی سے دین اسلام کی مضبوط وٹھوس تعلیمات کے بجائے ایسے اداروں میں داخل کررہے ہیں ، جہاں غیر اسلامی تربیت اور شرکیہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں ،
الیکشن کے موقعوں پر بطور خاص بہت سے مسلمانوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ہر آبادی میں کئی کئی خانوں میں بکھر جاتے ہیں ، اور قوم وملت کے مفاد پر اپنی ذاتی مفاد کو ہی ترجیح دینے لگتے ہیں ،
ایسے نازک اور پر فتن ماحول میں جبکہ مسلمان داخلی وخارجی مسائل و آلام سے دو چار ہیں، خود مسلمانوں کو بحیثیت مسلم اپنے ان تمام اعمال و افعال کا بنظر عمیق جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اور قوم و ملّت کے باشعور افراد ، گھر کے گارجین و منتظمین اور ملت اسلامیہ کے مصلحین کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ خود اپنی ذات ، اپنے اہل وعیال اور اپنی قومی و ملی آبادی پر محنت اور عملی جد وجہد کررہے ہیں ۔۔۔۔ ؟ وہ سوچیں کہ کیا ان کی زندگی صرف اپنی ذات کےلئے ہے ، یا قوم و ملت کےلئے بھی۔۔۔۔۔ ؟ اور اپنی شریعت کی حفاظت کےلئے وہ کیا کچھ کررہے۔۔۔۔۔۔؟
کیا شریعت کے حفاظت کی ذمہ داری صرف حکومت کی ہے ،۔۔۔۔۔ ؟ کیا حکومت مسلمانوں کو پنجگانہ نمازیں اور دوسرے شرعی احکام واعمال انجام دہی سے روکتی ہیں ۔۔۔۔ ؟ نہیں اور یقیناَ نہیں تو پھر مسلمانوں میں اتنی بے شعوری اور احکامات الہیہ سے انحراف کیوں ہے۔۔۔؟
شریعت تو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کےلئے ہے ، اور یہ قیامت تک محفوظ رہے گی ، اصل کام تو یہ ہے کہ مسلمان دین کو مضبوطی سے تھام کر اس کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرے ،اور وہ خدائی دین سے پوری طرح وابستہ رہے ، مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کےانسانوں کی کامیابی و کامرانی اور انسانوں کے تحفظ کا اصل راز اسلام میں پنہاں ہے ، مسلمانوں کو جاہئے کہ اپنے اندر سیاسی بصیرت ، سیاسی شعور ،سیاسی حکمت عملی اور سیاسی لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ علمی و تعلیمی میدان کو سرکرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کرنے کی عملی جد وجہد کریں ، ورنہ اللہ پاک ان کی جگہ دوسری ایسی قوم کو میدان عمل میں لے آئے گا ، جو رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے راستے پر ہونگے ،
اسلامی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جس دور میں بھی مسلمان خدائی احکام سے باغی ہوئے ، اور جب بھی وہ خواب وغفلت میں مست ہوئے، ان کی اقبال وبلندی ،تخت وتاج، جاہ وجلال ، رعب ودبدبہ اور سلطنت و حکومت ان کے ہاتھوں سے چھین لی گئی ، اور وہ خدائی نصرت سے اپنی کرتوتوں سے محروم ہوگئے ،
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی شریعت کی حفاظت کریں، خود اس پر عمل پیرا ہوں ، اور اپنی نسلوں کو بھی دین کی مضبوط اور ٹھوس تعلیم سے آراستہ کریں, اور خود دین اسلام سے وابستہ ہوکر اسلام کا سچا پکا سپاہی بنیں ، اور اسلام کی صحیح اور واضح ترجمانی کا عملی فریضہ انجام دینے کی بھرپور کوشش کریں، یہی وقت کا تقاضہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کی حفاظت اور دنیاوی واخروی کامیابی ہے، تحفظ شریعت کے صرف ڈھول پیٹنے اور بڑے بڑے اجتماعات کے صرف انعقاد ہی سے شریعت کی حفاظت نہیں ہوگی، اور نہ ہی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے سے کام پورا ہوگا،بلکہ میدان عمل میں آ کر شرعی احکامات پر عمل کرنے سے شریعت کی حفاظت ہوگی۔