(مشعل راہ ۔ 14)
سیدنا جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ ہم میں دیہاتی بھی تھے اور غیر عرب بھی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پڑھے جاؤ، سبھی بہتر ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (قرأت کو) اس طرح سیدھا کریں گے جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے۔ وہ اس کا اجر (دنیا میں) جلد ہی لینا چاہیں گے اور (آخرت میں) اس کے اجر کو مؤخر نہیں کریں گے۔” (ابو داؤد، رقم 830)
یہ حدیث ہم پر ایک اہم نکتہ واضح کرتی ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت میں لہجہ اور تلفظ اہم ہیں، لیکن اصل کمال قرآن کی روح، اس کے پیغام، اور اس کی تعلیمات کو اپنانا ہے۔ لیکن آج ایک عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کی تلاوت میں عربی لہجے کا رنگ نہیں ہے، تو اسے کمتر سمجھا جاتا ہے اور اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی عالم دین بھی ہو، لیکن اس میں لہجے کی خاص مہارت نہ ہو، تو اس کی قابلیت پر سوال اٹھانے کے لئے بس یہی کہنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ وہ قرآن کو "صحیح” نہیں پڑھ سکتا۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقی طور پر متکبرانہ ہے بلکہ عقلی اور علمی طور پر بھی بے حیثیت ہے۔
حدیث میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فصیح عربی اور غیر عربی لہجے میں قرآن پڑھنے والوں کی قرأت دونوں کو درست قرار دیا ہے۔ جیسے آج بھی انگریزی میں مختلف لہجے ہیں، یعنی ایک امریکی اور ایک غیر امریکی کی انگریزی لہجے میں بہت سے فرق واقع ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں لہجوں کو صحیح تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اسی حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ لہجہ اور تلفظ اہم تو ہیں، مگر تلاوت کا بنیادی مقصد قرآن کی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
قرآن کو عربی لہجے میں پڑھنا پسندیدہ ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اخلاقی رویہ بھی درست ہونا چاہیے۔ جو لوگ صرف قرأت کی مہارت پر زور دیتے ہیں اور اخلاقی پہلو کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ درحقیقت دین کی حقیقی تعلیمات سے دور ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کو محض ایک فن کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اس کی روح کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کریں۔
ہمیں چاہئے کہ قرآن کی تلاوت کی قدر کرتے ہوئے اپنے اخلاق کو بھی بہتر بنائیں۔ جو لوگ صرف ایک پہلو پر زور دیتے ہیں اور دوسرے پہلو کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ نہ خدا کے پیغامات کو جانتے ہیں اور نہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات ہمیں علم اور اخلاق، دونوں کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں تاکہ ہم اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکیں اور دین کی حقیقی روح کو زندہ رکھ سکیں۔
تحریر: عامر کلامؔ
(استاذ: مدرسہ نور الہدیٰ مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار)
01 نومبر 2024