جمعیۃ علماء کے ریاستی نائب صدر کا بہرائچ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ، اس سانحہ کو مقامی افسران کی لاپرواہی کانتیجہ قرار دیا
بہرائچ۔ گزشتہ 13 اکتوبر کو گنیش وسرجن کے دوران ہوئے حادثہ کے بعد دنگائیوں کی جانب سے بے قصور مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جس سے بڑی تعداد میں لوگ دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ 2 روز قبل جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی کو بہرائچ جانے سے روک کر ائیرپورٹ سے ہی دہلی واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ آج جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے متاثرہ علاقوں کا تفصیلی جائزہ لیا، جلے ہوئے مکانات اور دوکانوں کا معائنہ کیا، متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کے غموں کو سنا اور نقصانات کی بھرپائی میں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔
اس موقع پر مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ یہ واقعہ مقامی افسران اور انتظامیہ کی ناکامی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ مولانا نے کہا کہ یہ عجیب ٹرینڈ بنتا جارہا ہے کہ مذہبی جلوسوں میں دیگر مذاہب، ان کی مقدس شخصیات اور عبادت گاہوں کو مستقل نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ ڈی جے اور رکارڈنگ میں فحش کلمات اور اگالیوں پر مشتمل گانے بجائے جاتے ہیں۔ نامناسب نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔لیکن اس پر وقتی بیان بازی کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم اب تک نہیں اٹھایا گیا ہے جبکہ یہ چیز ہر مرتبہ انتشار اور فساد کا سبب بنتی ہے۔ یہاں بھی کچھ یہی صورتحال ہوئی ہے۔
مولانا نے کہا کہ ہمیں نوجوان کی موت کا افسوس ہے لیکن اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ تیوہار خوشیوں کا سبب ہوتے ہیں، انہیں نفرت کی علامت نہ بنایا جائے۔ مولانا نے مقامی افسران کے رویہ کے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو شاید نہ تو اس نوجوان کی موت ہوتی اور نہ ہی کوئی حادثہ پیش آتا۔ ایک نوجوان کی موت کو لے کر جس طرح بے قصور عام مسلمان شہریوں کے گھروں کو جلایا گیا، موٹر سائیکلوں کو آگ کے حوالے کیا گیا، لوٹ پاٹ مچائی گئی، حتی کہ جن گھروں میں جانور پلے ہوئے تھے انہیں بھی لوٹ لے گئے، کئی گھنٹوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور پولیس آنکھ اور کان بند کرکے سوتی رہی، یہ ضلع کے ساتھ ہمارے صوبہ کے لاء اینڈ آرڈر پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور محکمہ پولیس کی ساکھ کو متأثر کرنے والا ہے۔
مولانا نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف جو لوگ اس پورے حادثہ کا سبب بنے، انہیں ریاستی ہمدردی حاصل ہورہی ہے، معاوضہ اور اکرام سے نوازا جارہا ہے، دوسری طرف جو لوگ بلا کسی وجہ کے اس حادثہ کا شکار ہوئے، جن کو گالیاں دی گئیں، جن کے مذہبی جذبات مجروح کیے گئے ان کے ہی گھروں کو منہدم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یہ رویہ کسی بھی صورت میں ملک اور انسانیت کے حق میں مفید نہیں ہوسکتا۔ مولانا نے اس فیصلے پر ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا جس میں ہائی کورٹ نے گھروں کے انہدام کے ظالمانہ فیصلے کو ممنوع قرار دیا۔
مولانا عبداللہ قاسمی نے اس موقع پر میڈیا کے کردار کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دور ہندوستانی میڈیا کا تاریک ترین دور ہے۔ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول کر عام شہریوں کے ذہنوں کو گندہ کرنا اور ایک دوسرے کی نفرت دلوں میں پیدا کرنا میڈیا کی بدترین دہشت گردی ہے۔ اگر اس پر لگام نہ لگائی گئی تو یہ ملک اور انسانیت دونوں کیلئے سخت نقصاندہ ہوگا۔
مولانا نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے مطالبہ کیا کہ اس پورے واقعہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے، جو افسران اس پورے سانحہ میں ملوث ہیں ان پر سخت کارروائی کی جائے اور جن لوگوں نے ایک منصوبہ بند طریقے تحت اس پوری واردات کو انجام دیا اور پورے علاقے کو ختم کرنے کا اارادہ رکھتے تھے، ان کو قانون کے تحت سخت سے سخت سزا دلوا کر نشانِ عبرت بنایا جائے۔ مولانا نے کہا کہ صوبہ کے مکھیا کو تعصب کے اثرات سے پاک ہو کر غیر جانبداری کے ساتھ اس پورے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مولانا نے بتلایا کہ جمعیۃ علماء ہند اس پورے معاملے پر سرگرم ہے اور مظلومین کی داد رسی اور مدد کیلئے کوشاں ہے۔ جلد ہی صوبائی و مرکزی سطح کے وفود علاقے کا دورہ کرکے حالات کو نارمل کرنے، نفرتوں کو ختم کرنے اور مظلومین کی مدد کرنے کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء وسطی اترپردیش کی مجلس عاملہ کے رکن مولانا شبیر احمد قاسمی نے متاثرین کو کچھ نقدی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء بطور امداد پیش کی۔ وفد میں جمعیۃ علماء وسط زون کے ناظم تنظیم قاری عبدالمعید چودھری، خازن مفتی اظہار مکرم قاسمی، سکریٹری مولانا انصار احمد جامعی، جرول کے معروف د عالم مفتی محفوظ الرحمن قاسمی اور قاری کلیم وغیرہ موجود رہے۔