جامعہ امہات المؤمنین پواخالی۔۔۔۔ جیسا نام ویسا کام

جامعہ امہات المؤمنین پواخالی۔۔۔۔ جیسا نام ویسا کام
                                        🖊 ظفر امام
__________________________________
     جامعہ امہات المؤمنین پواخالی ضلع کشن گنج کے قیام کے اولِ دن سے ہی اُسے دیکھنے کی آرزو قلب میں گُد گُدا رہی تھی،اور اُدھر جامعہ کے بانی و مہتمم مخدومِ گرامی جناب الحاج مولانا صدام حسین صاحب قاسمی مدظلہ کا پُرزور اصرار بھی تھا،مگر  جب بھی ارادہ کیا یا پروگرام بنایا ہمیشہ تنگئ وقت شکوہ کناں ہوئی،اور میں چاہ کر بھی پچھلے پانچ چھ سالوں میں ادارہ کی زیارت سے محروم رہا۔
     امسال ششماہی کے موقع سے بانئ ادارہ کا اصرار اتنا زور آور رہا کہ میں چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کرسکا،با وجودیکہ اُس وقت میرے سر پر کئی سارے بوجھ تھے،ایک گھنٹے کا وقت نکالنا بھی میرے لئے کارے دارد تھا مگر کسی کے خلوص کو یوں پرے کردینا میں اخلاقی زبوں حالی کی علامت سمجھتا ہوں،لہذا بادل نخواستہ میں نے ہامی بھرلی اور کسی طرح وقت کا ایڈجسٹ کرکے 19/اکتوبر 2024؁ء مطابق 15/ربیع الثانی 1446؁ بروز ہفتہ دن کے سہ پہر کو آپ کے ادارے میں جا پہنچا۔
   میں چونکہ مختصر وقت لیکر گیا تھا،گھڑی دن کے دو بجا رہی تھی اور مغرب سے پہلے مجھے واپس بھی ہونا تھا،ستم یہ کہ اس بیچ مجھے ظہرانہ تناول کرنے کے ساتھ نمازِ ظہر سے بھی فارغ ہونا تھا،ادارے کے مہتمم صاحب کا دسترخوان میزبانی لوازمات کے ساتھ سج چکا تھا، میں بعجلتِ تمام ظہرانہ اور ظہر سے فارغ ہوکر مدرسے کے خارجی حصہ میں بنی ایک درسگاہ میں جاکر بیٹھ گیا،میرے سامنے تپائی پر قرآنِ کریم کا ایک نسخہ رکھا تھا،اور قرینے سے بچھی سامنے کی تپائیوں پر تقریبا دس طالبات مکمل پردے کے ساتھ سمٹی اور سہمی بیٹھی تھیں،یہ طالبات درجۂ سادس(چھٹا درجہ) کی تھیں،پہلے ان طالبات کے ناظرہ قرآن کا امتحان لیا گیا،یہ فارغ ہوئیں تو تقریبا اتنی ہی طالبات پر مشتمل دوسری جماعت آگئی،اسی طرح یکے بعد دیگرے میں نے چار جماعت کی طالبات کے ناظرہ قرآن کا امتحان لیا،جملہ طالبات نے جس خوش اسلوبی،تلفظ کی ادائیگی،لہجہ کی جزرسی،ترنم کی خوبصورتی اور تجوید کی بالیدگی کے ساتھ امتحان دیا اس نے میرے دل کو موہ لیا،میں خوشی سے باغ باغ ہوگیا،مسرت سے میرے جسم کا رُواں رُواں جھوم اٹھا،میرے سامنے ماضی کے دریچے کھل گئے،میں پل بھر کے لئے ماضی کے خیالوں میں کھوگیا،جہاں بناتِ حوا کے لئے اس طرح کی تعلیم کا نہ کوئی نظام تھا اور نہ اہتمام،نہ ان کو پڑھانے کا رواج تھا اور نہ ہی تعلیم دلانے کی رسم،گھر کی بیٹیاں باندی بن کر رہ جاتی تھیں، ان کا کام بس پَو پھٹے سے لے کر شام ڈھلے تک کولہو کے بیل کی مانند کام میں جُتا رہنا اور اُپلے تھاپنا تھا، سونے چاندی کی پَری بُندیوں سے لیس ہو کر بھی وہ بے رونق نظر آتی تھیں،کیونکہ ان کا وجود تو اصل زیور یعنی تعلیم سے محروم ہوا کرتا تھا،خوش قسمتی سے اگر کسی نے مکتب میں جاکر  تعلیم حاصل کر بھی لی تو وہ تعلیم اتنی شکستہ اور بےربط ہوتی کہ اس کے حاصل کرنے والے کو تعلیم یافتہ کہنا بجائے خود جہالت تھا، خود پڑھانے والے منشیوں اور ٹیوٹروں کا قرآن اتنا جہل آمیز ہوتا کہ الامان و الحفیظ۔
     اور ابھی زمانہ زیادہ آگے نہیں بڑھا کہ بحمداللہ ہمارے نوجوان حساس دل فضلاء نے بناتِ حوا میں دینی تعلیم کے رجحان کو عام کرنے کا یہ سنہرا بیڑا اٹھایا اور اس کے لئے جگہ جگہ بنات کے ادارےقائم کرنے شروع کئے،ان مدارس کے قیام نے قوم کی بیٹیوں اور ان کے ذمہ داروں کے اندر تعلیم کی للک پیدا کی،اور ان کے اندر ایک ایسے شوق نے اُبال مارا کہ وہ اپنا سب کچھ تیاگ کر ان علمی چھاؤنی کا رُخ کرنے لگیں،جس سے نہ صرف یہ کہ وہ خود تعلیم سے بہرہ مند ہوئیں بلکہ اپنے توسط سے اپنی کئی نسلوں کی بہتری کی بھی وہ ضامن بن گئیں،یہ وہ تاثرات تھے جو مسندِ امتحان پر بر وقت میرے دل پر وارد ہو رہے تھے۔
     یاد رکھئے کہ جس طرح شریعت نے لڑکوں کو تعلیم دلانے کا مکلف بنایا ہے اسی طرح لڑکیوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرانے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم آج کے اس مغرب زدہ اور ارتداد کے دور میں اور بھی مستحکم ہوجاتا ہے،آج آئے دن قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کے ارتداد کی جو داستانِ دل فگار اخبارات کی سرخیاں بنتی ہے وہ ان کے دینی تعلیم سے نابلد اور بےبہرہ ہونے کی عکاسی کرتی ہیں،اگر انسان عقیدہ کا پختہ ہو،اللہ،اس کے رسول اور حشر و نشر پر اس کا ایمان کامل ہو تو پھر دنیا کی کوئی بھی لالچ اسے ارتداد کے دہانے تک نہیں پہنچا سکتی،ایسے میں بہن بیٹیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانا اور ان کے قلوب میں دینِ الہی کے عقائد اور شریعتِ احکام کو راسخ کرانا اور بھی ضروری ہوگیا ہے،اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ چیزیں گھر میں بیٹھ کر حاصل نہیں ہوسکتیں،اس کے لئے ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو اختلاط سے بالکلیہ پاک اور صاف ہو،ان کی چہار دیواریوں کے اندر صرف لڑکیاں ہی محصور ہوں،جہاں ان کی ماہر معلمات کی نگرانی میں پڑھنے لکھنے اور کھانے پینے کی مکمل سہولت موجود ہو۔
     اللہ پاک جزائے خیر دے ادارہ ہذا کے روحِ رواں مخدومِ مکرم حضرت مولانا صدام حسین صاحب قاسمی مدظلہ العالی کو کہ آپ نے اِس نہایت حساس مسئلے کو دقتِ نظر اور بالغ نگاہی کے ساتھ دیکھا، ماحول کا جائزہ لیا اور اس کے حل کے لئے پوری تندہی،مستعدی اور چابک دستی کے ساتھ آمادہ ہوئے،اور نہایت بے سروسامانی کے عالم میں پواخالی شہر میں ایک کرایے کے مکان میں”جامعہ امہات المؤمنین“کے نام سے ایک مدرسے داغ بیل ڈالی جس کا تعلیمی افتتاح 28/جنوری 2018؁ء عمل میں آیا،اس بیچ آپ مدرسے کی نجی زمین کی حصولیابی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے اور پسینہ بہاتے رہے،بالآخر آپ کی یہ دوڑ دھوپ رنگ لائی اور کئی بیگھوں پر مشتمل  پواخالی شہر سے جنوبِ مشرق کی سمت نکلتی ہوئی پختہ سڑک کے ڈھلوان پر آپ کو زمین میسر آگئی،جس میں آپ نے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب سہ منزلہ عمارت کھڑی کی،اور پھر باضابطہ یکم اکتوبر 2022؁ء کو مدرسے کو اس نئی عمارت کی چھاؤں میں منتقل کرلیا،آج بحمداللہ کئی ماہر،تجربہ کار اور مشاق معلمات کی نگرانی میں پوری تب و تاب اور جلوہ سامانی کے ساتھ یہ ادارہ اپنا تعلیمی، تربیتی، ثقافتی اور تہذیبی سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور بتدریج ترقیات کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے۔
     ادارے کا محل وقوع نہایت پُرسکون اور ہو حق کی صداؤں سے یکسر آزاد ہے،پواخالی بازار سے تقریبا ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر جنوبِ مشرق کو نکلتی ہوئی ایک پختہ سڑک کے ڈھلوان پر واقع جامعہ امہات المؤمنین کی شاندار،پُرشکوہ،عالیشان اورحسن و جمال کی شاہکار خوبصورت عمارت ہر آتے جاتے انسان کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے،اُس ویرانے میں بشکل بہار کھلے اُس عمارت کو ہر رہ گزر ایک نظر دیکھنے کو اپنی نگاہوں کا کفارہ سمجھتا ہے۔
    ادارے کے سائبان میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد  مجھے جن چیزوں کا احساس ہوا اس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک بنات ادارے کو جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ جملہ لوازمات جامعہ امہات المؤمنین میں بدرجۂ اتم موجود ہیں،کیونکہ تعلیم کے ساتھ اس میں تربیت اور پردے کا بھی خاص اہتمام ہے،سڑک سے نظر اٹھاکر دیکھیں گے تو اس کے صدر دروازے کو دیکھ کر آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے ادارے کا یہی ایک گیٹ ہو،لیکن ایسا نہیں ہے،بلکہ یہ خارجی گیٹ فقط آپ اس کے دفتر تک پہنچانے کے لئے ہے،جونہی آپ گیٹ کے اندر داخل ہوں گے تو آپ کو اپنے سامنے ویسا ہی ایک اور مضبوط اور بلند گیٹ نظر آئےگا،بنات ہاسٹل کا پورا نظام اسی کے اندر انجام پاتا ہے،جہاں مرد حضرات پر بھی نہیں مار سکتے حتی کہ مہتمم صاحب بھی نہیں جاتے نہ کسی ہمہ شمہ انسان کو لے جاتے ہیں،الا یہ کہ کسی بڑی ہستی کی آمد پر کسی دعائیہ نشست کا انعقاد ہو،خلاصہ یہ کہ مدرسہ کا نظام نہایت ہی شاندار،قابل رشک،باحجاب اور باپردہ ہے اور پواخالی کی سرزمین پر یہ ادارہ بڑے ہی عمدہ طریقے سے طالباتِ علومِ نبوت کو سیراب کر رہا ہے۔
    اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ادارہ کی عنان جس شخصیت کے ہاتھوں میں ہے وہ بذات خود نہایت منتظم،زیرک،فعال اور ذہین انسان ہیں، مولانا صدام حسین صاحب کو میں دارالعلوم کے زمانے سے ہی جانتا اور پہچانتا ہوں،اللہ نے آپ کو بےپناہ انتظامی صلاحیتوں سے نوازا ہے، آپ قیام دارالعلوم دیوبند کے زمانے میں انجمن تنویر البیان ضلع کشن گنج کے انتظامِ کار کے ممبروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے،اور انجمن کی ترقی و تعمیر کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے،اِدھرعرصے سے جمعیة علماء کشن گنج کی رکنیت نے بھی آپ کی ان صلاحیتوں کو مزید پر عطا کردئے ہیں، تدریس میں بھی آپ کا ذوق نہایت عمدہ اور اعلیٰ ہے، فراغت کے بعد آپ کا ادارہ فیض القرآن ٹھیکڑی باڑی جیسے معیاری ادارے میں تدریسی خدمات انجام دینا آپ کی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
    گفتگو کے دوران مولانا صدام صاحب نے مجھے بتایا کہ:بنات کے ادارے کا اصل الاصول یہ ہے کہ اندرونی نظام کو سنبھالنے والی کوئی خاتون قدم قدم پر آپ کی ہمرکاب ہو“آپ اس بابت کافی خوش قسمت ہیں کہ آپ کی اہلیہ محترمہ نہ صرف یہ کہ ایک سند یافتہ عالمہ ہیں بلکہ پڑھانے کے ساتھ جملہ امور کی انجام دہی میں بھی مکمل مہارت رکھتی ہیں،تعلیم سے لیکر تربیت تک مدرسہ کا مکمل اندرونی نظام آپ کی اہلیہ محترمہ ہی کے ہاتھوں میں ہے۔
    چونکہ جامعہ امہات المؤمنین اپنے قیام کے دن سے ہی جس عبقری اور مایہ ناز انسان یعنی حضرت اقدس الحاج مولانا محمد ایوب صاحب ندوی بھٹکلی مدظلہ العالی صدر جمعیۃ السنۃ التعلیمیۃ والخیریۃ الھند کے زیر سرپرستی چل رہا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ: قوم کی بیٹیوں کو عالمہ بنانا مطلوب نہیں بلکہ مؤمنہ بنانا مطلوب ہے“ لہذا آپ ہی کی ایماء پر ادارے میں مؤمنہ کورس کا نظام چلتا ہے،یہ کورس کُل چھ سال کے عرصے کو محیط ہے،اس نظام کے تحت طالبات کو تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ ناظرہ قرآنِ کریم،اردو،ہندی، انگریزی بقدر ضرورت حساب،بہشتی زیور،علوم و فنون کی دیگر مختلف کتابیں درجہ بندی کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں،اور آخری سال میں مشکوٰة شریف کے اختتام کے ساتھ طالبات کی خمار پوشی کی جاتی ہے۔
    الغرض جامعہ امہات المؤمنین اپنے نام کا لحاظ رکھتے ہوئے مکمل طریقے پر اپنے مشن میں گامزن ہے،اور ایک پاکیزہ ماحول میں اپنے شب و روز کی زندگی طے کر رہا ہے،اس پورے نظامِ تعلیم و تربیت کو سنبھالنے میں جہاں مہتمم صاحب اور آپ کی اہلیہ کی عرق ریزیاں کارفرما ہیں،وہیں ادارے کی ریڑھ کی ہڈی کہی جانے والی جملہ معلمات کی محنتیں بھی قابلِ تحسین ہیں،نیز اس موقع پر ہم اُس مرد جانباز کو بھی قطعی فراموش نہیں کر سکتے جو حسنِ اخلاق کا ایک مجسمہ اور تواضع کے پیکر ہیں،امانت دار اتنے کہ مہتمم صاحب نے مالیت کے پورے نظام کو آپ کے سپرد کر دیا ہے،دو تین گھنٹے کے اندر ہی اس مرد غیور نے میرے دل پر بھی قبضہ کر لیا،ان سے میری مراد جناب حافظ و قاری احمد اللہ صاحب حسینی چونی ماری کی ذات اقدس ہے، آپ ایک دو گھنٹے تعلیم دینے کے ساتھ جامعہ کے دفتر میں اپنا مکمل وقت صرف کرتے اور مدرسے کی مکمل نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں،آپ کی مستعدی اور خدمت کے تو مہتمم ادارہ بھی بڑے مداح ہیں،اسی طرح حضرت مولانا ایوب صاحب ندوی کے فرزند ارجمند جناب مولانا محمد صالح صاحب ندوی اور مولانا داؤد صاحب کے اسماء بھی قابل ذکر ہیں کہ اگر قدم قدم پر ان حضرات کا ساتھ نہ ہوتا تو یقینی طور پر اتنا بڑا نظام قابو میں نہ آپاتا۔
    دعا ہے کہ اللہ پاک ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی کی ترقیات سے مالا مال فرمائے اور اس کا فیض چہاردانگِ عالم تک پہنچائے۔۔ آمین

                       ظفر امام کھجورباڑی
                       دارالعلوم بہادرگنج
                      6/نومبر 2024؁ء
     

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے