راغب انور پورنوی
سیدنا و مولانا حضرت محمد ﷺ کی ولادت با سعادت پیر کے روز صبح صادق کے وقت ربیع الاول عام الفیل مطابق اپریل571 عیسوی میں ہوئی،آپ ﷺ کی ولادت سے چند مہینے پہلے آپ کے والد محترم عبداللہ کی وفات ہو گئی،آپ ﷺ کے دادا جان عبدالمطلب کی طرف سے آپ کا نام احمد تجویز کیا گیا ابو لہب کی آزاد کردہ باندی ثوبیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے چند دن دودھ پلانے کے بعد شرفاء قریش کی عادت کے مطابق آپ ﷺ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی رضاعت میں دے کر مضافات مکہ میں بھیج دیا گیا اس وقت آپ ﷺ آٹھ دن کے تھے۔
ولادت کے چوتھے سال شق صدر کا واقعہ پیش آیا مورخین لکھتے ہیں کہ شق صدر کا واقعہ چار بار پیش آیا (۱) زمانہ طفولیت میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس (٢) دس سال کی عمر میں پیش آیا (٣) واقعہ بعثت کے وقت پیش آیا (٤) واقعہ معراج کے موقع پر ۔ بعض نے پانچویں بار کا شق صدر بھی ذکر کیا لیکن وہ صحیح قول کے مطابق ثابت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا چھ سال تک حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پرورش میں رہے ۔
ولادت کے چھٹے سال آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنے میکے میں ایک ماہ کا قیام کیا وہاں سے واپسی پر مقام ابواء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں۔
ولادت کے ساتویں سال آپ ﷺ اپنے دادا عبدالمطلب کی تربیت میں پروان چڑھتے رہے ۔ اور ولادت کے اٹھویں سال دادا محترم کا انتقال ہو گیا اور دادا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے۔ اور ولادت کے بارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ شام کے پہلے تجارتی سفر میں شرکت کی اسی سفر میں بحیرہ راہب نے آپ کی نبوت کی پیشین گوئی بھی دی اور ولادت کے چودھویں سال یاپندرویں سال اور بعض روایات کے مطابق بیسویں سال عربوں کی مشہور لڑائی ؛ حرب الفجار ؛ پیش آئی اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض چچاؤں کے اصرار پر شریک تو ہوے لیکن قتال میں حصہ نہیں لیا اور ولادت کے سولہویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے حلف الفضول نامی معاہدہ میں شرکت کی اور ولادت کے 25ویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کا مال لے کر تجارت کا دوسرا سفر شام کی طرف کیا سفر سے واپسی پر اس سفر میں پیش آنے والے واقعات تجارتی نفع اور آپ کے اخلاق و واقعات سن کر دو مہینہ اور 25 روز کے بعد حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھجوا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کر لیا اور ولادت کے 35ویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی ہونے والی تیسری تعمیر کے وقت حجر اسود کو اپنے دست اقدس سے نصب فرما کر خانۂ جنگی کے لیے کمر بستہ قبائل قریش کے درمیان باہمی محبت و الفت پیدا فرمائی اور اس کٹھن مرحلے کو بحسن خوبی انجام تک پہنچایا۔ سیرت طیبہ کے 39 ویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا بے مثال رہا کہ اپنے تو اپنے غیروں کی زبان پر آپ کے بارے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین ہیں۔ ولادت کے 40 ویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وقت غار حرا میں گزارا یہاں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر نبوت کا تاج رکھا گیا ۔
نبوت کے پہلے سال غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئی باتفاق مورخین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اتوار کے دن عطا ہوئی لیکن مہینہ کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے ابن البر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آٹھ ربیع الاول کو نبوت سے سرفراز ہوئے اس قول کی بنا پر بوقت بعثت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال تھی جبکہ ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق سترہ رمضان المبارک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی اس قول کے مطابق بوقت بعثت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال اور چھ ماہ تھی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے نبوت کے دوسرے سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ تبلیغ فرماتے رہے اسی سال میں حضرت خدیجۃ الکبری حضرت علی مرتضی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت جعفر ابن ابی طالب حضرت عفیف بنکندی حضرت طلحہ حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت خالد ابن سعید حضرت عثمان بن عفان حضرت عمار بن یاسر حضرت صہیب حضرت عمر بن عنبسہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے یہ سب اور کچھ دیگر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سابقین اولین صحابہ کہلاتے ہیں۔
نبوت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت ہوئی نبوت کے چوتھے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاعلان دعوت دینے کا حکم ہوا جس کی بنا پر کفار خصوصا قریش کی طرف سے بھی کھلم کھلا دشمنی و عداوت کا مظاہرہ ہونے لگا اور اسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت ہوئی ۔
نبوت کے پانچویں سال حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے اسی سال حبشہ کی طرف پہلی اور دوسری ہجرت ہوئی پہلی ہجرت میں 11 مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں ۔ اور دوسری ہجرت میں 86 مرد اور سولہ عورتیں شامل تھی اسی سال حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ابوجہل ملعون کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی یہ اسلام کی خاطر شہید ہونے والی پہلی خاتون ہیں ۔ نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔اور ان کی برکت سے مسجد حرام میں نماز اعلانیہ ادا کی گئی ۔
نبوت کے ساتویں سال مقاطعہ قریش کا واقعہ پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت ہوئی ۔
نبوت کے آٹھویں سال مشرکین مکہ کے مطالبہ پر شق قمر کا بے مثال معجزہ رونما ہوا ۔ نبوت کے نویں سال بھی شعب ابی طالب میں ہی محصور رہے ۔ نبوت کے دسویں سال مقاطعہ ختم ہوا اور اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا ان کے انتقال کے تقریبا تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا ۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت سودہ بن زماں سے ہوا اور اسی سال حضرت عائشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ لیکن اس وقت رخصتی نہیں ہوئی ۔ اور اسی سال واقعہ طائف بھی پیش آیا ۔ نبوت کے گیارویں سال مدینہ سے آنے والے حاجیوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے تقریبا چھ آدمی مشرف بہ اسلام ہوئے اس سے انصار کے اسلام کا آغاز ہوا ۔ نبوت کے بارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی ۔ اور اسی موقع پر امت پر پانچ نمازیں فرض ہوئی ۔ اسی سال بیعت عقبہ اولی ہوئی ۔ اس میں بارہ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ نبوت کے تیرہویں سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی جس میں 73 مرد اور دو عورتوں نے اسلام قبول کیا ۔ اسی سال مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ۔ اسی سال قریش نے نعوذ باللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو یہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اجازت ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔