*ختم نبوت کا ثبوت قرآن و سنت اجماع و قیاس کی روشنی میں*
________________________
✍️پیش کش: عبدالرحمن صادق فیروز آباد
*فی القرآن الکریم* "ما كان محمد ابا أحد من رجالكم ولكن رسول اللّه وخاتم النبيين (الاحزاب: ۴۰)
*فی الأحادیث*
(١)إن رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم قال: فضلت على الأنبياء بست، اعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب، واحلت لي الغنائم، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، وارسلت إلى الخلوق كافة وختم بى النبيون(مسلم ترمذی ابن ماجہ)
(۲)قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرسالةوالنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدي ولا نبي (ترمزي كتاب الرؤيا باب ذهاب النبوة)
(۳)قال رسول اللّٰه صلى اللّه عليه وسلم إن اللّه لم يبعث نبيا إلا حذر امته الدجال وأنا آخر الأنبياء وأنتم آخر الأمم فهو خارج فيكم لا محالة،(ابن ماجہ کتاب الفتن باب الدجال)
(۴)قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم لا نبوة بعدي إلا المبشرات (مسند احمد ابو داؤد شریف نسائی شریف)
*صحابہ کرام کا اجماع*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا، اور جنہوں نے ان کی نبوت کو تسلیم کیا ان کے خلاف حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ نے باتفاق جنگ کی تھی،
*علمائے امت کا اجماع*
(۱)امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اور کہا مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں، اس پر امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں "لا نبی بعدی” (مناقب الامام الاعظم أبي حنیفة لابن احمد المکی ١/١٦١)
(٢)علامہ شہر ستانی اپنی مشہور کتاب "المحلل والخلل، میں لکھتے ہیں "اور اسی طرح جو کہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہے بجز عیسی علیہ السلام کے، تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہے،(٢٤٩/٣)
(٣) علامہ ابنِ نجیم اپنی اصول فقہ کی مشہور کتاب "الأشباه والنظاءر،، میں لکھتے ہیں کہ اگر ادمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا ماننا اور جاننا ضروریات دین میں سے ہے، (ص١٦٩)
(٥)ملا علی قاری "شرح فقہ اکبر، میں لکھتے کہ ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرنا بالاجماع کفر ہے،(ص٢٠٢)
*قیاس۱* دنیا میں نبی کو بھیجنے کی چار حالتیں ہو سکتی ہیں،، اول یہ کے کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت ہو، کیونکہ اس سے پہلے اس قوم میں کوئی نبی نا پہنچا ہو،دوم یہ کہ سابق نبی کی تعلیم کو بھلا دیا گیا ہو یا اس کی شریعت میں تحریف ہو گئی ہو، سوم یہ کہ گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ مل سکی ہو، اور مزید انبیاء کی ضرورت ہو،چارم یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو،
اور یہ بات بالکل ظاہر ہے جس پر قرآن بھی شاہد ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا،لہذا کسی خاص قوم میں اب دوسرے نبی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں رہی،اور قرآن اس بات کا بھی شاہد ہے کہ قرآن کریم میں تحریف نہیں ہو سکتی لہذا تینوں وجہ میں سے کوئی وجہ باقی نہیں رہی،رہی چوتھی چیز اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کی ضرورت ہو اپ کی مدد کے لیے ، اور یہ ظاہر ہے آپ کے بعد کسی کی ضرورت نہیں رہی،
*۲* اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا اس میں کفر ایمان کا سوال کھڑا ہو جائے گا جو لوگ ان کو نبی مانیں گے وہ ایک امت ہوں گے اور جو نہیں مانیں گے وہ کافر قرار پائیں گے،
اور یہ اختلاف کوئی فروعی اختلاف نہیں بلکہ اصولی اختلاف ہوگا، اور پھر ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی بھی طرح ممکن نہ ہوگا، ان حقائق کو اگر کوئی نگاہ میں رکھے تو یہ بات بالکل واضح ہو جائیگی ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بڑی رحمت ہے جس کے بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر بردار بننا ممکن ہوا ہے،ورنہ اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو یہ مستقل تفریق کا موجب ہوتا، اور ہر نبی کے انے پر یہ اتفاق پارہ پارہ ہوتا،
*نئی نبوت امت کے لیے رحمت* **نہیں بلکہ لعنت ہے،*
آدمی اگر سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہے گی کہ جب تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیج دیا، اور جب اس نبی کے ذریعے سے دین کی تکمیل بھی ہو گئی، اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کر دیا گیا، تو نبوت کا دروازہ بند ہونا چاہیے، تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان ایک ہی امت بن سکیں اور بلا ضرورت نئے نبیوں کی آمد سے متفرق نہ ہوں،اور یہی وجہ ہے کہ اس امت کے اتفاق کے لیے کعبہ اور جہت کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر کیا گیا-فقط،