دہلی انتخابات سےقبل پچاس ہزار ترشول کی تقسیم کا منصوبہ!

*✒️سرفرازاحمد قاسمی،حیدرباد*
*رابطہ: 8099695186*
دہلی ملک کی ایک ایسی ریاست ہے جو مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے،الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق وہاں اگلے مہینے یعنی 5 فروری کو الیکشن ہونگے اور 8 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی،ہرگذرتے دن کے ساتھ وہاں کا سیاسی پارہ عروج پر ہے،بی جے پی،کانگریس اور عاپ یہ تینوں پارٹیاں پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترچکی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اورالزام تراشی میں شدت پیدا ہوگئی ہے،انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانا الزامات اورجوابی الزامات عائد کرنا کوئی نیا معاملہ نہیں ہے،لیکن ادھر کچھ سالوں سے سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے ووٹ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے،کچھ پارٹیاں اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں،ملک کی حکومتیں اب مسلمانوں کے تعلق سے منافقانہ کردار ادا کررہی ہیں،عام آدمی کے سربراہ کیجریوال نے کہاہے کہ دوبارہ انتخاب پر انکی پارٹی ہندو مندروں کے پجاریوں اور گرو دواروں کے گرنتھیوں کو ماہانہ 18ہزار روپے الاؤنس دےگی اوراسکےلئے پجاری،گرنتھی سمان یوجنا شروع کرے گی،یہ اعلان دہلی اسمبلی انتخابات سے قبل کیاگیاہے،عام آدمی پارٹی مسلسل چوتھی میعاد حاصل کرنے کےلئے کوشاں ہے،اس دوران دہلی وقف بورڈ کے تحت آنے والی مساجد کے ہزاروں ائمہ اور مؤذنین نے انکی تنخواہوں کی اجرائی میں تاخیر پر کیجریوال کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج بھی کیا لیکن اسکا کوئی اثر حکمراں پارٹی پر نہیں ہوا، گذشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر بھی نظر سے گذری کہ ملک کی ایک شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد دہلی میں بڑے پیمانے پر ترشول تقسیم کررہی ہے،تقریبا دس ہزار ترشول اب تک تقسیم کئے جاچکے ہیں،انتخابات سے قبل مزید پچاس ہزار سے زائد ترشول تقسیم کرنے کا ہدف ہے،اس خبرسے دارالحکومت کے مسلم علاقوں میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے اور ریاست کے مسلمان سراسیمگی کی حالت میں ہیں کہ کہیں پھر سے دہلی میں آگ وخون کی ہولی نہ دہرادی جائے،ابھی چند سال پہلے ہی دہلی کو فرقہ وارانہ فسادات کی نظر کردیاگیاتھا،جس میں ایک سوسے زائد لوگوں کی جان گئی تھی،مسلمانوں کے گھربار اور دکانات وغیرہ کو بری طرح لوٹ لیاگیاتھا،پھرسے طویل عرصے بعد وشو ہندو پریشد نے راجدھانی دہلی میں یہ مہم شروع کی ہے۔
تاہم وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ اسکا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،دہلی اسمبلی کی میعاد 23فروری 2025 کو ختم ہورہی ہے،اسی لئے فروری کے پہلے ہفتے میں وہاں الیکشن کا اعلان کردیا گیا ہے،وشو ہندو پریشد کی یہ مہم 15 دسمبر کوریاست میں شروع کی گئی تھی اورپہاڑ گنج میں پہلی تقریب منعقد ہوئی تھی،اگلی بڑی تقریب 19 جنوری 2025 کو ہونی ہے،وی ایچ پی کے مطابق کوئی بھی شخص ان پروگراموں میں آکر ترشول لےسکتاہے،وی ایچ پی،سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم فیسبک،واٹس ایپ اور ٹویٹر کے ذریعے عام لوگوں کو اس اعلان کے ساتھ مدعو کررہاہے کہ آپ سبھی اپنا نام لکھوائیں اور شستر(ہتھیار)دھارن کریں،یہ ایک طرح سے وشو ہندو پریشد کے یوتھ ونگ بجرنگ دل میں بھرتی کا پروگرام بھی ہے،گپتا بتاتے ہیں کہ جولوگ پہلے سے تنظیم میں ہیں انھیں ترشول دھارن کرنا ہی ہوتاہے،جو تنظیم میں نہیں ہوتاہے اور دھارن کرنے کی خواہش کا اظہار کرتاہے اسے تنظیم میں شامل کرلیاجاتاہے،دہلی میں اسوقت طویل عرصے کے بعد ترشول کی تقسیم کا کام ہورہاہے،پرانت منتری (صوبائی وزیر)کے مطابق2024 سے پہلے دہلی میں آخری بار ترشول تقسیم کرنے کا کام 2012 یا 2015 میں کیا گیا تھا،کیا انتخابات کے پیش نظراتنے سالوں بعد ترشول تقسیم کئے جارہے ہیں؟سریندر گپتا اسکی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بجرنگ دل کے قیام سے ہی ترشول دکشا کا پروگرام ہورہاہے،دہلی میں بھی وقتا فوقتا ایسا ہوتا رہاہے،یہ پروگرام ایسا ہی ہوتاہے،پانچ دس سال میں ایک بار،کیونکہ جس جنریشن(نسل) کو ہم نے پہلے ترشول دے دیا ہے اسکے پاس تو رہتا ہی ہے،گپتا مزید کہتے ہیں اگر انتخابات کو ذہن میں رکھ کر ہم یہ کررہے ہوتےتو ابھی جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تب کیوں نہیں کیا؟اس سے پہلے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کیوں نہیں کیا؟ہندو سماج کے تحفظ کےلئے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کا کارکن جو عہد لیتا ہے وہ انتخابات کی بنیاد پر نہیں لیتا تاہم پہاڑگنج کی تقریب میں اسی ایشو کی بازگشت سنائی دے رہی تھی جسکو بی جے پی انتخابی ایشو بنارہی ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے وشو ہندو پریشد کی جانب سے ہندوؤں میں پچاس ہزار سے زائد ترشول تقسیم کرنے کا منصوبہ دہلی کے ووٹروں اور الیکشن میں کتنا اثر انداز ہوگا اس پر کچھ کہنا ابھی جلد بازی ہوگی،لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ترشول کی تقسیم کا یہ منصوبہ راجدھانی کی فرقہ وارانہ فضا کےلئے کوئی خطرے کی گھنٹی ضرور ہے،سیدھے سیدھے اسکا مقصد بھی یہ ہے کہ ہندتوا کے نام پر دہلی اسمبلی کی جیت کو بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیاجائے،دہلی اسمبلی کے گذشتہ دو انتخابات بی جے پی کےلئے انتہائی مایوس کن رہے ہیں،وہاں تمام تر کوششوں کے باوجود بی جے پی کو کراری ہارملی تھی اور شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا،گذشتہ دس برسوں سے بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاہے،مرکزکے علاوہ اکثر ریاستوں میں اقتدار کے باوجود دہلی میں وہ کا میابی حاصل کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے،اسلئے اس بار تمام تر حربے اپنائے جارہے ہیں تاکہ بہر صورت اقتدار پر قبضہ کیاجاسکے،الیکشن سے پہلے برادران وطن میں پچاس ہزار سے زائد ترشول تقسیم کرنے کے منصوبے کو بی جے پی کے سیاسی مقصد سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا،حقیقت یہ بھی ہے کہ اب جیت کےلئے ہر الیکشن میں ہندتواکے کارڈ کا استعمال کسی نہ کسی طرح اس پارٹی کی سیاسی مجبوری بن چکی ہے،یہ الگ بات ہے کہ رائے دہندوں کی بڑی تعداد اس پارٹی کے فرضی ہندتوا کو سمجھنے لگی ہے اور اس سے دور ہونے لگی ہے، شاید اسی لئے اس پارٹی کو اپنی جیت کا سہارا ای وی ایم اور اس کا بھروسہ رہ گیاہے،ترشول تقسیم کرنے کا مقصد سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ کسی بھی طرح ہندو ووٹروں کی صف بندی کی جائے اور ساتھ ہی مسلم ووٹروں کو اسلحہ کے دم پر ڈرا دھمکاکر ووٹ ڈالنے سے روکنے کی کوشش بھی کی جائے،ابھی حال ہی میں یوپی اسمبلی کےلئے ہوئے ضمنی الیکشن جسطرح مسلم ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے اور انھیں پولنگ پر جاکر ووٹ ڈالنے سے روکنے کی کوششیں ہوئی اس سے تو صاف ہے کہ اب بی جے پی کے ایجنڈے میں مسلم ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک جانے سے روکنا بھی جیت کی حکمت عملی کا حصہ بنتا جارہاہے۔
دہلی اسمبلی میں کل 70سیٹیں ہیں اور اسکی قسمت تین ایم کے ووٹنگ پیٹرن پر منحصر ہے،مہیلا(خواتین)مسلمان اورمتوسط طبقہ یہ تینوں ایم دہلی انتخابات کے نتائج طے کرسکتے ہیں،یہ ووٹ بینک بادشاہ گر کے طور پر سامنے آئے ہیں اور تمام پارٹیاں انکی حمایت حاصل کرنے کوشاں ہیں،خواتین انتخابات میں مسلسل کنگ میکرزکے طور پر سامنے آئی ہیں،خواندگی میں بہتری کی وجہ سے خواتین،خود مختار طور پر ووٹ دینے کے فیصلے کررہی ہیں،وہ کئی ریاستوں میں مردوں کے مقابلے زیادہ تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ رہی ہیں،مدھیہ پردیش،مہارشٹرا اور جھارکھنڈ وغیرہ میں بہت سی خواتین نے موجودہ حکومتوں کو ووٹ دیا،جونقدآمدنی کے امدادی اسکیموں سے متاثرہوئیں،2011 کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 13 فیصد ہے،کبھی کانگریس کے پکے حامی سمجھے جانے والے مسلم رائے دہندوں نے پچھلے برسوں میں عام آدمی پارٹی کی طرف رخ کرلیاہے،2008 کے اسمبلی انتخابات میں 64 فیصد مسلمانوں نے کانگریس کی حمایت کی،14 فیصد نے بی جے پی کی اور 22 فیصد نے دیگر پارٹیوں کی حمایت کی تھی،2013 میں جوعام آدمی پارٹی کا پہلا الیکشن تھا،53 فیصد مسلمان نے کانگریس،12 فیصد نے عاپ اور بی جے پی کی حمایت کی تھی،2015 میں 77 فیصد مسلم رائے دہندوں نے عاپ کو ووٹ دیا،جو 2020 میں بڑھکر 83 فیصد ہوگیا،کانگریس کوصرف 13 فیصد اور بی جے پی کو تین فیصد ووٹ ملےتھے،2020 میں عاپ کے 54 فیصد ووٹ شیئر میں سے تقریبا گیارہ فیصد مسلمانوں کے ووٹ سے آئے،مطلب ہر پانچ ووٹرز میں سے ایک عاپ کا ووٹر مسلمان ہے،اسلئے یہ ووٹ بلاک عاپ کےلئے برقرار رکھنا بہت ضروری ہے،عاپ کے بی جے پی پر15 فیصد مجموعی ووٹ شیئر کی برتری میں سے دس فیصد مسلم ووٹ کا حصہ ہے،ان حالات کو دیکھ کر عاپ اور کانگریس دونوں ہی بادشاہ گرمسلمانوں کا رخ کررہی ہیں اور بی جے پی بھی پرجوش ہے۔
دہلی کے گذشتہ فرقہ وارانہ فسادات بھلے ہی اسکا نتیجہ نہ ہو ں لیکن یہ بات بلاکسی شک وشبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ اسطرح کے پروگرام ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف ماحول تیار کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور اسکا نتیجہ ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کی شکل میں سامنے آتاہے جو فرقہ پرستوں کو انتخابی جیت دلانے میں مددگار ثابت ہوتاہے،وی ایچ پی کے ترشول تقسیم کے منصوبے پر اٹھ رہے سوالوں کا ایک اہم سبب اسکی غلط ٹائمنگ بھی ہے،سوال یہ بھی ہے کہ اگر وی ایچ پی سچ بول رہی ہے تو پھر اچانک یہ پروگرام اسمبلی الیکشن سے پہلے مکمل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟سوال یہ بھی ہے کہ ایک ہندو اکثریت والے ملک میں ہندوؤں کا تحفظ کس طرح خطرے میں ہے،جبکہ یہاں اقتدار میں کوئی مسلمان نہیں ہے؟ اور کیا اس خطرے سے لڑنے کا کام حکومت کا ہے یا وی ایچ پی اور اس جیسی شدت پسند تنظیموں کا؟ سوال یہاں یہ بھی ہے کہ کیا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اسی طرح ہتھیار رکھنے اور اسے تقسیم کرنے کی حمایت وی ایچ پی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں کریں گی؟ظاہر ہے اسکا جواب نفی میں ہوگا،تو پھر سوال یہ ہے کہ وی ایچ پی اور اس جیسی تنظیوں کو اسطرح کے پروگرام کی اجازت کیوں دی جائے جس سے ملک کا امن وامان خطرے میں پڑجائے؟عدالتوں کوجلدازجلداسکا نوٹ لیکر شدت پسند تنظیموں کی اسطرح کی سرگرمیوں پر روک لگانی چاہیے تاکہ ملک کا ماحول خراب نہ ہو،امن وامان برقرار رہے اور کسی تنظیم کو اسطرح کا امتیاز بالکل نہ ہو،سچائی یہ ہے کہ وہلی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی کی حکومت بی جے پی کےلئے ناقابل برداشت ہے،وشو ہندو پریشد کا یہ پروگرام اسمبلی الیکشن کو سامنے رکھ کر ہی ترتیب دیاگیاہے،اور ایسے پروگرام سے جس پارٹی کو فائدہ ہو انکی تائید نہ ہو ایسا بالکل نہیں ہے،اسلئے یہ سمجھنا ہوگا کہ وشو ہندو پریشد کے اس پروگرام کو بی جی پی حمایت حاصل ہے،دیکھنا ہوگا کہ وی ایچ پی کا یہ پروگرام دہلی کے رائے دہندوں اوروہاں کے انتخابی نتائج پر کتنا اثرانداز ہوتاہے یا پھر ہمیشہ کی طرح دہلی کی عوام بی جے پی کو ایک بار پھر مسترد کرتی ہے۔
دیکھناہے نتیجہ کیا ہوگا

*(مضمون نگار معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے