روزی،روٹی،اور مذہب

مشعل راہ ۔ 16

انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت روزی روٹی کی تلاش ہے، جو کہ صرف جسمانی بقا کا ضامن نہیں بلکہ اجتماعی اور اخلاقی ترقی کی بنیاد بھی ہے۔ روزی کا حق ہر انسان کا ہے، اور یہ حق تمام مذاہب کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے، جہاں محنت، انصاف، اور ایک دوسرے کی مدد کی تعلیم دی گئی ہے ______ آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں بعض اوقات یہ حق مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر مشروط ہو جاتا ہے۔

ابھی چند روز قبل ایک افسوسناک واقعہ نے ہماری معاشرتی روایات اور انسانی حقوق کی پامالی کی ایک مثال پیش کی۔ ممبئی کے ٹاٹا ہسپتال کے باہر ایک بزرگ شخص نے کھانے کا اسٹال لگایا، جہاں ایک غریب مسلمان خاتون، جو صرف ایک وقت کی روٹی کے لیے لائن میں کھڑی تھی، اس کو زبردستی "جئے شری رام” کہنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ واقعہ نہ صرف اس فرد کی ذاتی حیثیت پر حملہ ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کی توہین بھی ہے۔ ہم ایک بھوکے انسان سے یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کی خاطر اپنے عقیدے کی قیمت ادا کرے؟

یہ صورتحال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ لاکھوں بھارتی شہری عرب ممالک میں روزگار کی غرض سے مقیم ہیں۔ خلیج تعاون کونسل (GCC) کے ممالک (جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین، قطر اور کویت شامل ہیں) میں تقریباً 90 لاکھ بھارتی شہری روزگار کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات میں 35 لاکھ سے زائد، سعودی عرب میں تقریباً 25 لاکھ، کویت میں 9 لاکھ سے زائد، قطر میں 8 لاکھ، عمان میں ساڑھے 6 لاکھ، اور بحرین میں 3 لاکھ سے زائد بھارتی شہری کام کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار وزیر خارجہ (S. Jaishankar) کی جانب سے 2022 میں ہی جاری کیا گیا تھا۔ (BBC News اردو ۔ 16 جون 2024)۔ یہ لوگ اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف اپنی زندگیوں کو سنوار رہے ہیں بلکہ ان ممالک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے عقیدے کی بنیاد پر روزگار کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی اور نہ ہی انہیں یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص مذہبی عقیدے کے مطابق چلیں۔

تمام مذاہب کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہر انسان کی عزت اور حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اگر خلیجی ممالک میں ان بھارتیوں سے یہ شرط رکھی جائے کہ وہ "اللّٰہ اکبر” جیسے کلمات ادا کریں تو یہ انسانی حقوق کے منافی ہوگا۔ یہ بات واضح ہے کہ ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل یا ثقافت سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ تمام چیزیں ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مذہب اور انسانیت کے مابین ایک حتمی تعلق ہونا چاہیے۔ چاہے ہم کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، ہمارا اولین تعلق انسانیت سے ہے۔ قرآن، انجیل، وید اور دیگر مقدس کتابیں ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور انسانیت کے رشتے کو فوقیت دیں۔

ہمیں (یعنی ہر ہندوستانی) مذہبی رواداری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں افراد اپنے عقائد کی بنا پر تقسیم نہ ہوں، بلکہ انسانیت کے مشترکہ رشتے کو سمجھیں۔ تعلیم اور آگاہی کے ذریعے ہی ہم اس فکر کو پھیلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت اور احترام بڑی عبادت ہے۔ اگر ہم اس اصول کو اپنائیں تو ہمارا معاشرہ اور ملک ایک ایسی جگہ بن سکتا ہے جہاں ہر فرد کو اپنے حقوق حاصل ہوں اور کوئی بھی انسان اپنے عقیدے کی بنا پر تنگدستی، فاقہ کشی یا بے روزگاری کا شکار نہ ہو۔

تحریر: عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
03 نومبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے