از محمد یعقوب چمپارنی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم قصبہ ہری ہانس ضلع سیوان بہار
آخری قسط
میرا قیام مفتی صاحب کے حجرے میں تھا وہی ان کی درسگاہ تھی اور قیام گاہ بھی قیام گاہ کیا تھی سادگی اور بےنیازی کا ایک اچھا خاصا نمونہ تھا دیواریں بوسیدہ پلاسٹر اکھڑے ہوے ایک طرف دوچار اینٹیں پڑی ہوئیں نہ تخت نہ پلنگ نہ صوفہ نہ گدا نیچے فرش کے نام پر ایک پھٹا پرانا میٹ اس پرایک پتلی سی لمبی گدڑی اور ہلکی چادر۔میں نے برجستہ پوچھا یہ مفتی صاحب کا روم ہے؟مفتی صاحب اسی میں سوتے ہیں؟یقینا مفتی صاحب زہدوقناعت استغناء و انابت صبر ورضا اور توکل علی اللہ جیسے اخلاق فاضلہ سے آراستہ تھے آپ کی نشست وبرخاست خوردونوش سفروحضر خلوت و جلوت سادگی وبے نفسی سے عبارت تھی چند سال پہلے مدرسہ عربیہ ریاض العلوم قصبہ ہری ہانس ضلع سیوان کے جلسہ دستار بندی میں بطورِ مہمان خصوصی آپ تشریف لائے تھےجلسہ کے بعد دریافت کیا یعقوب بھائی!کہاں سلائیں گے؟ میں نے کہا:مہمان خانہ میں ،کہا:نہیں؛ میں باہرمیدان میں سوؤں گا،ایک چوکی یا چارپائی ڈلوا دیں۔ چناںچہ آپ نے تنہا وہیں میدان میں رات گزاری جبکہ ادھرکوئی سوتا نہیں تھا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جہاں مفتی صاحب نے آرام کیا تھا آج وہاں تک کی زمین بحمد اللہ مدرسہ کی ملکیت میں آچکی ہے میدان کا باقی بڑا حصہ کوشش کے باوجود مدرسہ کوحاصل نہیں ہوسکا
کمال تو یہ ہےکہ افہام وتفہیم زہد وقناعت مجاہدہ وریاضت،جیسے اوصاف،جن سے آپ مزین تھے ان کی جھلک آپ کے شاگردوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے عاشورہ کا دوسراروزہ تھا اس لئے جامعہ میں نماز فجر أول وقت میں ادا کر لی گئی۔ میں مسافر تھا مجھے صبح خیرآباد کےلئے نکلنا تھا اسلئے میں نے اسفار میں نماز ادا کی اور باہر نکلا سامنےایک عجیب منظر تھا،دس بیس ہوشیار لڑکے میزاور کرسیوں پر اوندھے منہ پڑے ہوئے سورہے تھے۔ معلوم ہوا کہ کمروں میں جگہ تنگ ہے،سونےمیں دقت ہوتی ہے،ٹین کی چھت ہے وہ بھی گرم ہوجاتی ہے۔اس لئے یہیں نیند پوری کررہےہیں
بے ساختہ دل بھر آیا آنکھیں نم ہوگئیں اللہ اکبر ! اللہ کے دین کی حفاظت اور سنت رسول عربی فداہ ابی وامی کی ترویج واشاعت کے لئےتیارہونے والے افراد جو مستقبل کی دینی قیادت کرنے والے ہیں جن میں کوئی وقت کا جنید وشبلی بنے گا تو کوئی زمخشری وبیہقی ہوگا،کسی کا مشن تحفظ ختم نبوت ہوگا،کوئی عطاء اللہ شاہ بخاری اور انور شاہ کشمیری کا کردار اداکرے گا تو کوئی مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے کردار میں جلوہ گر ہوگا تو کوئی سید سلیمان ندوی کے رنگ میں نظر آئے گا کردار الگ الگ ہوں گے مگر مشن ایک ہوگا
ان شاءاللہ
مفتی صاحب نےان کی تربیت اورذہن سازی میں کتنا خونِ جگر جلایا ہےاور جامعہ عزیزیہ کے اساتذہ کرام نے کتنی جانفشانی کی ہےاس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس وادی پرخار کا راہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! جامعہ عزیزیہ کےاساتذہ بھی ماشاءاللہ اخلاص وللہیت کے پیکر ہیں عجب،خود پسندی،ماوشما اور خادمیت ومخدومیت کے قبیح اثرات سے بہت حد تک پاک ہیں قدم قدم پر اس کامشاہدہ ہوا
افطار تقسیم ہورہی ہے محترم مفتی منظور احمد صاحب تسبیح لئے وہیں ٹہل رہےہیں اور دوسرے اساتذہ اپنے ہاتھوں سے اشیاء خورد و نوش تقسیم کررہےہیں کوئی بالٹی لیکر دوڑ رہا ہے تو کوئی بھگونا لئے بھاگ رہا ہے ہر ایک اس فکر میں ہے کہ مہمانان رسول کو کسی زحمت وکلفت کا سامنا نہ ہو
اللہ بھائی ذیشان کو اپنی شایان شان بدلہ دے اور دیگر اساتذہ کرام کو اجر عظیم دے
نکلتے وقت مفتی صاحب کا فون آگیا یعقوب بھائی! مدرسہ کی نئی عمارت دیکھتے جائیے گا
عمارت کیا ہے؟اک اچھے خاصے رقبہ پر پھیلی ہوئ کمروں کی قطار ہے جو حسن تعمیر اور ان کے ذوقِ سلیم کا آئینہ دار ہے اس کی تعمیر بہت نفاست اور بڑے منصوبے کے تحت کی گئی ہے چھوٹی بڑی ہر ضرورت کا لحاظ اور مستقبل کے عزائم کا پورا خیال رکھا گیا ہے عمارت ابھی تشنئہ تکمیل ہے رنگ و روغن، جنگلے دروازے، فرش اور دیواریں، اصحاب خیر کی راہ دیکھ رہی ہیں، میں نے مفتی صاحب سے کہاکہ بھئی! اسی میں منتقل ہوجائیں وہاں کی بہ نسبت یہاں بہرحال سہولت وآرام ہےجواب دیا "دوچار مہینوں میں ان شاءاللہ منتقل ہوجائیں گے”لیجیے منتقل ہوگئے بقول شخصے” درویش ہرچہ گوید دیدہ می گوید "چلے گئے۔ دور، بہت دورچلے گئے ،جانا تو سب کو ہے اور جاتے سب ہیں مگر "اُس شان والے”کے سوا،اِس شان سے جانے والے کتنے ہیں؟تم کیا گئےکہ تمام چاہنے ماننے والےاداس ہیں ۔ چھوٹا بڑا اپنا پرایا استاذ شاگرد سب سوگوار ہیں کوئی الفاظ کا سہارا لے کرغم بھلانے کی ناکام کوشش کررہا ہے تو کوئی اندر ہی اندر گھٹ رہا ہے آنسو بہارہا ہے
مرحوم دل میں ہزاروں سپنے سجائے آنکھوں میں سیکڑوں خواب بسائے اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے ۔اب آئے،کوئی آئے، اور موصوف کے خوابوں کی تعبیر بن جائے۔
مرحوم کو رب ذوالجلال نے جمال ظاہر کے ساتھ کمال باطن سے بھی پورا نواز رکھا تھا آپ ایک طرف کامیاب مدرس فکر مند مہتمم اورشب بیدار عالم دین تھے تو دوسری طرف بے مثال خطیب،ماہر مفسر،کامل ادیب تھے۔ حق گوئی، بےباکی،حاضر دماغی اوربےپناہ قوت ارادی کے مالک تھے۔ہر ایک کے ہمدرد وغمگسار،مونس وغم خوار تھے سب کی باتیں سنتے، مسائل حل کرتے، ضرورتیں پوری کرتے، مشکل سے مشکل معاملات کو اس طرح چٹکیوں میں حل کرتے کہ آنے والا مطمئن ہوکر جاتا آہ: بھائی ذیشان! ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
بس ہم تواب یہی کہیں گے
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
5/5/1446م8/11/2024