فکرونظرــــــ٣
اپنے ساتھ کی جارہی کئی طرح کی ناانصافیوں کے باوجود ہم آزادی کا جشن منارہے ہیں،اور اس کے ذریعہ اپنے ان تمام اکابر،بزرگانِ دین،مسلم وغیر مسلم مجاہدین کی یادوں کو تازہ کررہے ہیں جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپناسب کچھ قربان کردیا،مگرانگریزوں کے سامنے وہ نہیں جھکے،اور نہ معافی مانگی،بلکہ تختہ دار پر چڑھ کر بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔
ہمیں بھی یہ بات یادرہنی چاہئیے،اورآنے والی نسلوں کو بھی یہ بات بتائی جانی چاہئیے کہ ہم نے اس ملک پر تقریبا چھہ سو سال حکومت کی ہے،یہاں کے باشندوں کو تہذیب وتفافت سے آشناکیاہے،عدل وانصاف اورحکومت کرنے کاطریقہ سکھایاہے،تاج محل،قطب مینار،لال قلعہ،گول گنبد کی شکل میں فن تعمیرکااعلیٰ نمونہ دیاہے،ثقافت وسیاست،صنعت وحرفت،تجارت وزراعت میں پوری دنیامیں ہندوستان کاسربلندکیاہے،ہم وہ نہیں تھے کہ یہاں کی دولت کو سمیٹ کر کہیں اور منتقل کیاتھا،بلکہ جو کچھ بھی کیا،اسی ملک کے لئے کیا،اور اسی ملک کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اپنے جسم کے خون کا ایک ایک قطرہ اس ملک کے لئے وقف کرنا اپنے لئے سب سے بڑی سعادت سمجھی۔
اسی لئے امام الہندمولاناابوالکلام آزادؒ نے ایک بارخطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : ہم اپنے ساتھ کچھ ذخیرے لائے تھے، اوریہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالامال تھی،ہم نے اپنی دولت اس کے حوالہ کردی،اوراس نے اپنے خزانو ں کے دروازے ہم پر کھول دیئے،ہم نے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیزدے دی،جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی،ہم نے اسے جمہوریت اورانسانی مساوات کاپیام پہونچایا،وہ کہتے ہیں:تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعہ پرگذرچکی ہیں،اب اسلام بھی اس سرزمین پرویساہی دعویٰ رکھتاہے جیسادعویٰ ہندومذہب کاہے،اگرہندومذہب کئی ہزاربرس سے اس کے باشندوں کامذہب رہاہے تو اسلام بھی ایک ہزاربرس سے اس کے باشندوں کامذہب چلاآتاہے،جس طرح ایک ہندوفخرکے ساتھ کہہ سکتاہے کہ وہ ہندوستانی ہے،اورہندومذہب کاپیروہے،ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخرکے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اورمذہبِ اسلام کے پیروہیں۔
جمعیۃ علماء ہندکے قائد وصدرمحترم جناب مولاناسیدمحموداسعدمدنی صاحب نے ٣٤ویں اجلاس مجلس منتظمہ کے موقع سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: بھارت ہمارادیش ہے،جتنایہ وطن نریندر مودی اور موہن بھاگوت کاہے،اتنایہ دیش محمودکابھی ہے،نہ محمودان سے ایک اینچ آگے ہے، اور نہ وہ محمودسے ایک اینچ آگے ہے،ساتھ ہی اس دھرتی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ خداکے سب سے پہلے پیغمبرابوالبشرسیدناآدم علیہ السلام کی سرزمین ہے،آپ یہیں تشریف لائے،یہ دھرتی اسلام کی جائے پیدائش ہے،یہ مسلمانوں کا پہلاوطن ہے،اس لئے یہ کہنا،یہ سمجھنااوربولناکہ اسلام باہرسے آیاہواکوئی مذہب ہے یہ سراسر غلط اور تاریخی اعتبارسےبے بنیادہے،اسلام اسی ملک کا مذہب ہے،اورسبھی مذاہب میں سب سے قدیم اور پرانابھی ہے،اسلام کے آخری پیغمبرحضرت آدم علیہ السلام اسی دین کو مکمل کرنے کے لئے آئے تھے،اسی لئے میں کہتاہوں بھارت مسلمانوں کے لئے وطنی اور دینی دونوں حیثیت سے سب سے اچھی جگہ ہے۔
یہ ملک انگریزوں نے مسلمانوں سے ناجائز طورپراپنے قبضہ میں لیاتھا،اسی لئے مسلمان ہی سب سے زیادہ مشق ستم بنائے گئے،انہیں کی اولاد کو ان کے سامنے ذبح کیاگیا،قیدوبند کی صعوبیتیں انہیں ہی دی گئیں،اسی لئے دارالعلوم دیوبند میں یوم آزادی کے موقع سے منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیرالہند حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب نے کہاتھا: یہ ملک ہماراہے اس لئے اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو سب سے زیادہ ہمارا دل تڑپتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں ہمارے بزرگوں نے دی ہیں، ہم یہ باتیں علی الاعلان کہتے ہیں، کیونکہ یہ اصل تاریخ ہے یہاں حکومت کے کارندے بھی بیٹھے ہوئے ہیں وہ ایک ایک لفظ کو سنیں، پرکھیں اور پڑھیں کہ تاریخ کیا ہے۔انہوں نے بہت زور دے کہاتھاکہ بھارت کی آزادی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا تھا جب اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، بھارت میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء ہی نے بلند کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ملک کی اصل تاریخ سے دانستہ چشم پوشی کرنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جابر انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والے یہ ہمارے اکابرین ہی تھے جنہوں نے کابل میں ایک جلاوطن حکومت قائم کی تھی اور اس حکومت کا صدر ایک ہندو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو بنایا گیا تھا، کیونکہ ہمارے اکابرین مذہب سے بالاتر ہو کر محض اتحاد اور انسانیت کی بنیاد پر اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے حق میں تھے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ لائے بغیر یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا تھا۔جولوگ آج کریڈیٹ لے رہے ہیں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا:بنیادی سوال یہ ہے کہ آزادی وطن کے لیے آپ نے کہا پاپڑ بیلے ہیں، ہم نے پاپڑ بیلے ہیں، اس لیے ہم جانتے ہیں کہ آزادی کسے کہتے ہیں، ہم یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کاقیام ہی آزادی وطن کے لیے ہوا تھا، آج کوئی فرقہ پرست اگر اس کی طرف انگلی اٹھاتا ہے تو وہ پاگل ہے، کم عقل ہے، دیوانہ ہے وہ یہ جانتاہی نہیں کہ دارالعلوم دیوبند کی درودیوار سے آزادی وطن کے لیے کیسی کیسی آوازیں اٹھی ہیں۔
۱۵ اگست ۲۰۲۴کے موقع سے یاد کیجئے اپنی تاریخ کو،اپنی قربانی کو،اور ملک کی آزادی کے لئے تن من دھن کی بازی لگادینے والے ان عظیم مجاہدین کو جن کی وجہ سے آج آپ اور ہم آزادی کی سانس لے رہے ہیں!
جئے ہند،جئے بھارت،
خالدانورپورنوی ،المظاہری