ماں کی تربیت سے ایک آدمی کی محنت کیسے رنگ لاتی ہے!

*ماں کی تربیت سےایک آدمی کی محنت کیسے رنگ لاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی تنہا بہت کچھ کر سکتے ہیں۔*

*عبدالواحدندوی*
*پھلواری شریف پٹنہ*

سان فرانسیسکو یونیورسٹی کا عرب طالبعلم
کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسیسکو کو امریکا میں "شہر” The City کہا جاتا ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے امریکا کا پندرہواں بڑا شہر ہے۔ اسّی کی دہائی کی بات ہے۔ سان فرانسسکو یونیورسٹی (University of San Francisco) میں ایک عرب نوجوان نے داخلہ لیا۔ عبد الرحمن ایک ارب پتی بزنس مین کا بیٹا تھا۔ گو کہ باپ زیادہ دیندار نہیں تھا۔ مگر ماں کے رگ و پے میں دین کی محبت رچی بسی تھی۔ اس نے اپنے لختِ جگر کی تربیت بھی ایسی کی تھی کہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پلنے بڑھنے کے باوجود وہ پکا نمازی تھا۔ باپ اپنے بزنس کو سنبھالنے کیلئے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔

نوجوان عبد الرحمن سان فرانسیسکو یونیورسٹی میں ایم بی اے کے لیے داخلہ لے لیا۔ اس نے دیکھا بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کا کلچر ہے، نیم عریاں لڑکیاں ہیں اور جو بھی مسلمان یہاں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتا ہے وہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر یہاں کے رنگ میں رنگ جاتا ہے، یہاں تک کہ نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیتا ہے، عموماً ایسا ہی زندگی میں مشاہدہ میں آتا ہے تو اس نوجوان کے دل میں ایک درد ایک تڑپ اٹھی، یہ بڑے کرم کے فیصلے ہوتے ہیں، یہ بڑی نصیبوں کی بات ہے۔ تو اس نے سوچنا شروع کیا اور مسلمانوں سے اس کے بارے میں بات کی تو کسی نے کہا کہ پاکستان میں دین کی محنت کیلئے ایک جماعت کام کر رہی ہے۔ آپ اس محنت کے بارے میں ان سے رابطہ کریں تو اس نے ایک خط رائیونڈ بھیج دیا۔ اس کا یہ خط شوریٰ میں پیش کیا گیا۔ اس کو تبلیغی جماعت کی محنت کا طریقہ کار لکھ کر جوابی خط روانہ کیا گیا۔ خط میں ابتداءً نماز کے شروع کرنے کا کہا گیا۔ جب اس کو خط ملا تو اس کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پھر عرب تو عرب ہیں۔ اس نے سان فرانسسکو یونیورسٹی کے میدان میں کھڑے ہوکر اذان شروع کی۔ تکبیر کی گونج سے پوری یونیورسٹی ہل گئی اور اسٹوڈنٹس اور پروفیسرز سب کمروں سے نکل کر ہکا بکا رہ گئے اور حیران وپریشان اس نوجوان کو دیکھتے رہے۔ سب ایسے کھڑے تھے کہ جیسے بت ہیں، کسی کی آواز نہیں نکل رہی، بس سب اس نوجوان کو دیکھتے رہے ۔ جب اذان ختم ہوئی تو جو مسلمان تھے، انہوں نے کسی کو نہ دیکھا، بس آستینیں چڑھالیں اور سب وضو کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے نماز باجماعت شروع ہوئی۔ یہ نوجوان آگے بڑھ کر امام بنا اور باقی مسلمان مقتدی بن گئے، جو غیر مسلم تھے سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیونکہ یہ یونیورسٹی یہودیوں کا مرکز ہے۔ اس کے Hillel International کو دنیا میں یہودیوں کا سب سے بڑا کالج (Largest Jewish College) قرار دیا جاتا ہے۔

جب نماز سے فارغ ہوئے تو نوجوان نے اسلامی تعلیمات پر کچھ روشنی ڈالی اور چند دنوں میں غیر مسلم اسلام کے بارے میں سوچنے پہ مجبور ہوئے۔ پھر مسلم طلبہ کی ایک جماعت سہ روزے کے لیے تیار ہو کر نکلی۔ شہر میں کوئی بھی مسجد نہیں تھی، اس لیے ایک گارڈن میں انہوں نے سہ روزہ لگایا۔ لوگ ان نوجوانوں کو دیکھتے تھے۔ یہ وہاں گارڈن میں گشت تعلیم و تعلم، نماز ومذاکرہ سارے اعمال کرتے رہے اور غیر مسلم اس جماعت کو دیکھتے رہے۔ یہ جماعت رائیونڈ مرکز کی ہدایات کے مطابق کام کرتی رہی۔

یہ نوجوان گیا تو ایم بی اے کیلئے تھا، بس اسے دین کی محنت کا ایسا چسکا لگا کہ یہ پورے 8 برس تک وہاں دعوت کا کام کرتا رہا۔ اس کانتیجہ پتہ ہے کیا نکلا؟ جب کام شروع کیا تھا تو شہر میں ایک مسجد بھی نہیں تھی۔ 8 سال میں 30 مساجد بن گئیں۔ ان میں سانٹا کلارا کی جامع مسجد بھی ہے، جس میں بیک وقت 4 ہزار افراد نماز پڑھتے ہیں۔ اس دوران کتنے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اب سان فرانسیسکو میں مسلمانوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہے، جو کل آبادی کا 3.5 فیصد ہیں۔جبکہ سان فرانسیسکو کے ساحلی علاقے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے۔

ڈاریل عبد الرحمن بھی انہی نو مسلموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کلیسا کا پیروکار تھا۔ لیکن 45 برس کی عمر میں اللہ نے مجھے دولت اسلام سے نوازا۔ جس کا سردست مجھے یہ فائدہ ہوا کہ منشیات سے میری جان چھوٹ گئی۔ میں نے اپنے تینوں بیٹوں کو بھی خالص اسلامی طریقے سے تربیت دی ہے۔ سان فرانسیسکو میں 10 دینی مدارس قائم ہوچکے ہیں، جن میں ایک ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک نوجوان کی محنت تھی، جو گیا تھا تو بزنس پڑھنے اور حق تعالیٰ نے اس سے دین کا ایسا کام لیا کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ بڑے نصیبوں کی بات ہے۔ یہ بڑے کرم کے فیصلے ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کس ارادے سے نکلے تھے اور حق تعالیٰ نے ان سے دین کا کتنا بڑا کام لیا کہ دنیا یاد رکھے گی۔ بس اللہ ہمیں بھی اپنے دین کی عالی خدمت کیلئے قبول فرمائے۔ آمین۔ (روزنامہ البیان، یو اے ای)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے