مدارس کے بچوں کی خستہ حالی کو سوشل میڈیا پر پیش کرنے کے رجحان اور اس کے پیشہ ورانہ استعمال کی مذمت
آج کل سوشل میڈیا پر ایک افسوسناک رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ دینی مدارس کے بچوں کی خستہ حالی کو نمایاں کر کے، ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے لوگوں کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ یہ رجحان اب ایک پیشہ ورانہ دھندے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، جس میں نہ صرف بلاگرز بلکہ خود اہلِ مدارس بھی شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کئی بلاگرز مدارس میں جا کر بچوں کی ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہیں اور انہیں موسیقی کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں، صرف اپنی TRP بڑھانے اور مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے۔ مگر بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اہلِ مدارس اور اساتذہ بھی اپنے اداروں میں موجود بچوں کی انتہائی خستہ حالت کو دکھا کر ویڈیوز بناتے ہیں، جن میں بچوں کی بنیادی ضروریات کی کمی اور غربت کو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بظاہر لوگوں سے چندہ اور مالی امداد حاصل کرنا ہے، مگر اس عمل میں ان بچوں کی عزت و وقار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ سوچنا ضروری ہے کہ جب خود اہلِ مدارس ایسی ویڈیوز بناتے ہیں، تو وہ ان بچوں کی عزت و احترام کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ ان بچوں کو تعلیم اور عزت دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے، نہ کہ ان کی ناداری کو ظاہر کر کے لوگوں کی ہمدردی بٹورنا۔ دین اسلام میں غریبوں اور محتاجوں کی پردہ پوشی کی تعلیم دی گئی ہے، نہ کہ ان کی کمزوریوں کو ظاہر کر کے ان سے مالی فوائد حاصل کرنا۔
ان اہلِ مدارس اور دیگر افراد کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس طرح کے اعمال نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے نیتوں کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمانوں کی عزت کو برقرار رکھنا کتنا ضروری ہے۔ اس قسم کی ویڈیوز بنانے والے اہلِ مدارس بھی اس عمل میں برابر کے مجرم ہیں، اور انہیں چاہئے کہ وہ اپنے ادارے اور ان بچوں کی عزت کو مجروح کیے بغیر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے طریقے تلاش کریں۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان بچوں کی مدد کا فریضہ خفیہ طریقے سے سرانجام دیں، اور ان کی ضروریات کو پورا کریں بغیر اس کے کہ ان کی غربت کو لوگوں کے سامنے عیاں کیا جائے۔ یاد رکھیں کہ یہ بچے کل کا مستقبل ہیں، اور ان کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا ہم سب پر فرض ہے۔
محمد لبیب اشرف