مدرسوں کے بچوں کا خیال رکھیں!

مدرسوں کے بچوں کا خیال رکھیں!

سالم ظفر ابن محمد اسرائیل
دولت پور ڈوبا جوکی ہاٹ ارریہ
_________________________________

میں نے چنددنوں پہلے ایک تحریر پڑھی جس میں ایک طالب علم کے جمعرات کے سفر کے مختصر احوال لکھے ہوئے تھے،مدرسوں کےبچے جمعرات کےدن عموماً جو اطراف واکناف کے ہوتے ہیں کچھ گھرچلے جاتے ہیں، اور رات گھر میں گزارتےہیں اورجمعہ کےدن دوپہرکےبعد واپس مدرسہ پہنچنے کےلے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔
اب وہ مختصر تحریر ملاحظہ فرمائیں جو آنکھوں کو نمناک کردینے والی ہے۔

ایک شخص کہیں جارہاتھاجب وہ ایک ” وین گاڑی "میں بیٹھے تواس میں زیادہ ترمدرسےکےبچے سوارتھے،ڈرائیورنےایک جگہ گاڑی روکی تاکہ وہ لوگوں سے کرایہ اصول کرسکےہرشخص اپنا اپنا کرایہ دےرہاتھا،اس سوار "وین” کے اندر ایک بچہ ایسا بھی تھا جن کےپاس کرایہ کم تھاڈرائیور نے اس سےکہاکہ اگرتمہارےپاس پوراکرایہ نہیں ہےتونیچےاُتر جاؤ،وہ بچہ تقریباًگیارہ بارہ سال کا رہاہوگا۔وہ شخص خاموش بیٹھے ہوئے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے ،گاڑی میں اور بھی لوگ موجودتھےلیکن سب تماشا دیکھ رہےتھے،مگر اس گاڑی میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھاجوکہتا کہ”ارے بھائی کوئی بات نہیں یہ تو بچہ ہے” یا "یہ کچھ پیسےہیں، میں دےدیتاہوں” اس طرح کی بات کسی نے نہیں کہی، جب اس شخص نے تماشا دیکھ لیا تو ان کو برداشت نہیں ہوا رہا نہیں گیا، وہ شخص آگے بڑھے اور ڈرائیورسےکہاکہ فرض کریں اگر آپ اس بچےکونیچےاُتار بھی دیں تو آپ کی گاڑی توویسے بھی چل رہی ہے،اگر یہ بچہ ساتھ جائےگاتوکیافرق پڑےگا؟
خیر! ڈرائیورکچھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنےلگا۔ باتیں بناتا رہا مگر وہ نہیں مانا،اس گاڑی میں چھ بچےتھے،اس شخص نےڈرائیورسےکہا کہ ان سب بچوں کاکرایہ واپس کرو ، میں یہ پانچ سو کا نوٹ دے رہا ہوں اس میں سےتمام بچوں کاکرایہ لے لو۔ کرایہ دینے کے بعد گاڑی اپنے منزل کی طرف چل پڑی۔

اس کے بعد اس شخص نے اس بچےسےپوچھاکہ تمہارےوالدکیاکام کرتےہیں؟

اب اس لڑکے کی زبانی سنئیے، کہ کس طرح معصوم زبان سے کہتا ہے میرےوالد دیہاڑی (مزدوری) کرتےہیں، لیکن کچھ دنوں سے بےروزگارہیں، آج میرےمدرسےکا کرایہ میرےپاس نہیں تھا تو میری ماں نےگھر میں کچھ چیزیں ادھراُدھرکیں،کچھ چھوٹےموٹے برتن اکٹھےکیے، انہیں بیچ کرصرف تیس روپے حاصل ہوئے،وہ مجھےدیے اور میری ماں نےروتےہوئےمجھے رخصت کیا_
اس تحریر سے اندازہ کر سکتے ہیں کیسے کیسے غریب طلباء علم دین حاصل کرتے ہیں،کتنی مشقتوں اور مشکلات کے باوجود علم دین حاصل کی جاتی ہے اس بچے کو سلام ہے کہ اُس بے سرو سامانی اور تنگی کے عالم میں علم دین کی خاطر جی جان لگا کر علم حاصل کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے، قابل مبارک باد بات یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہمت وحوصلہ کو پست نہیں کیا گھبرائے نہیں، اگر اس بچہ کی کی جگہ کوئی اور ہوتا تو تعلیم چھوڑنے کا ارادہ کرلیتا یا والدین زبردستی تعلیم سے روک دیتے اور ان کے والدین کو سلام ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی اور تنگی کے عالم بھی دینی علوم حاصل کرنے کے لیے بھیجا،
اس لیے یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے اور ضروری بھی ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں مدارس کےبچوں کا بہت خیال رکھا جائے، کچھ لوگ تو اپنے بچوں کو مدرسہ اس لیے نہیں بھیجتے کہ ٹوپی کرتا والے کریں گے کیا؟ کھائیں گے کیا؟ ان کی آمدنی کم ہے وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک مرتبہ (راقم سطور)کہیں سفر پہ جارہا تھا ٹرین پہ چڑھتے ہی ایک داڑھی اور پینٹ کٹ والے پر نظر پڑی سوچا کہ اس شخص سے حال احوال معلوم کی جائے کہاں سے ہیں اور کیا کرتے ہیں ، حسب سوچ میں نے اس شخص کے بغل میں جا بیٹھا خبر خیریت معلوم کی، اس شخص نے کہا” الحمد للہ میں ٹھیک ہوں ” اس کے بعد میں نے پوچھا آ پ کہاں جارہے ہیں اس نے بتا یا کہ میں ایک مدرسہ جارہاہوں اس مدرسہ میں ششماہی کی چھٹی ہوئی ہے ہمارے بچے اور بچیاں دونوں عربی درجے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان بچوں کو لینے جا رہا ہوں، میں نے دعائیں اور نیک تمناؤں کی مبارک بادی پیش کی۔

اللہ تعالیٰ آپ کے بچوں کو علم نافع عطاء فرمائے اور نجات وبخشش کا ذریعہ بنائے آمین_

پھر وہ صاحب کچھ دیر بعد کہنے لگے "مولوی صاحب” اس لائن میں پیسہ بہت کم ہے آمدنی کم ہے ” اور وہ صاحب ٹرین سے اترنے والے بھی تھے ٹرین منزل کے قریب قریب پہنچ چکی تھی، میں خاموش ہوئے بغیر سنجیدہ انداز میں ان سے کہا کہ دیکھئیے صاحب اولاً تو یہ لائن پیسہ کمانے کے لیے نہیں ہے جنہیں پیسہ کمانا ہوتاہے وہ اس لائن کا رخ نہیں کرتے ہیں،کیونکہ یہ لائن دین کی ترویج و اشاعت کے لے ہے۔ ثانیاً جو اس لائن میں آتے ہیں وہ ان سب کے چکر میں نہیں رہتے ہیں کہ کہاں سے آمدنی آئے گی کیا کھائیں گے کیسے گزارہ ہوگا، یہ تمام ذمہ داری اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے کسے روزی کِسے مزدوری ہمیں تو بس خلوص وللہیت کے ساتھ دین کو اور دین کی باتوں کو دوسروں تک پہنچانا ہے پھر ہم نے کہا کہ یہ سب باتیں ذہن میں نہیں لانا چاہیے، یہ ایک وہم اور وسوسہ ہے، ان کے بعد وہ صاحب تمام باتوں کو ہاں میں ہاں کرنے لگے، اور وہ اپنے مقام پہ آگئے تو میں نے مناسب نہیں سمجھا سفر دوران کہ بات چھیڑی جائے ان سے سلام و مصافحہ کیا اور دعاؤں کی درخواست کی۔

بہر کیف!! ہاں کچھ لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں داخلہ اس لیے کراتے ہیں کہ انہیں محض دینی علوم حاصل ہوجائے، "ایسے طالبان علوم نبوت کے والدین کو بھی سلام ہے” اور وہاں کھانا بھی مل جائے،اگر یہ بات عرض کی جائے تو غلو نہیں ہوگا کہ مدارس میں زیادہ تربچےغریب گھرانوں سےہوتےہیں، اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت دی ہے یا صاحب مال ہیں تو ان بچوں کے لیے مدرسہ میں کچھ نہ کچھ دیتے رہیں یا ہفتہ یا مہینے میں ایک بار ان کو اپنے گھر بلائیں اچھا کھانا کھلائیں ان بچوں کا خیال رکھیں اور انکی معاونت کرنے میں آگے آئیں اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، کیا پتہ یہی ایک عمل اللہ کے یہاں قبول ہوجائے اور نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اور ان سے دعائیں لیتے رہیں کیونکہ ان کی دعا ؤں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانِ رسولﷺ کی قدر کر نے اور انکی قدرومنزلت پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے