ملک میں امن وشانتی کیسے رہ سکتی ہے!

ملک میں امن و شانتی کیسے قائم رہ سکتی ہے؟

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6/اکتوبر 1991ء کو آل انڈیا مسلم انٹکیچول فورم کے زیر اہتمام ہندوستان کی سالمیت کے عنوان پر لکھنئو میں ایک سمینار حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی صدارت میں ہوا تھا،جس میں مخصوص علماء کرام،اہل علم ،دانشوران قوم و ملت اور مخصوص سیاسی حضرات بڑی تعداد میں شریک ہوئے تھے ، اسٹیج پہ اس وقت کے مرکزی وزیر مسٹر مادھو راؤ سندھیا، غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید بھی تھے اور ان لوگوں نے جمہوریت اور سیکولرزم ہی ملک کی سالمیت اور امن و شانتی کا واحد ذریعہ ہے،اس عنوان پر تائیدی تقرریریں کیں تھی ۔ (راقم الحروف بحیثیت سامع اس پروگرام میں ندوہ کے بعض ساتھیوں کے ساتھ شریک ہوا تھا ، ان دنوں راقم ندوة العلماء لکھنؤ میں درجہ عالیہ ثانیہ کا طالب علم تھا)
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے مجمع سے (جس میں خواص اہل علم اور منتخب سیاسی لیڈران موجود تھے)
خطاب کرتے ہوئے سیکولرزم کو اس پودے سے تعبیر کیا تھا ، جو سانپ اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا ،مولانا نے ایک رئیس/ چودھری کا قصہ سنایا کہ اس کے پاس ایک وسیع اور سر سبز باغ تھا ،اس نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ اس باغ میں ہر طرح کا تصرف اور تبدیلی کرنا، لیکن اس پودے کو اپنی جگہ پر باقی رکھنا ،اس وقت اس نے اس کا راز اور وجہ نہیں بتائی،جب خزاں کا دور آیا اور پھولوں کے درخت اور پودے مرجھا گئے، تو اس رئیس کے فرزند نے سب جھاڑ جھنکاڑ دور کردیے اور اس پودے کو بھی اکھاڑ کر پھینک دیا،یہ کرنا تھا کہ ایک سانپ بل سے نکل آیا اور اس نے اس کو ڈس لیا ،بعد میں معلوم ہوا کہ اس پودے کی یہ خاصیت تھی کہ یہ جہاں ہوتا ہے، وہاں سانپ نہیں آسکتا ،مولانا نے آگے فرمایا،، کہ ،، یہی معاملہ اس وقت ہمارے ملک کا ہے کہ اگر سیکولرزم نامذھبیت عدم تشدد کا پودا یہاں سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا، تو پھر تشدد اور مذہبی تعصب کا اژدہا نکل آئے گا اور وہ کوئی رعایت نہیں کرے گا”
مولانا نے اپنے اس خطاب میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ،، یہ بڑی خطرناک بات ہوگی کہ تاریخ کو الٹا سفر کرایا جائے ،تاریخ ایک سوتا ہوا شیر ہے،اگر اس کو جگا دیا گیا اور یہ اٹھ گیا تو دو ہزار برس تک کسی اور طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ملے گی ،اور ملک میں جو تبدیلیاں وقتاً فوقتاً آتی رہیں ،انہیں ختم کرنے میں ساری توانائی اور ملک کے وسائل اور اس کو ترقی دینے کے مواقع اس کی نذر ہو جائیں گے ،، ۔۔۔ (کاروانِ زندگی ،5/ ص، 51-52)
اس وقت ہندوستان میں فرقہ پرست عناصر اور زعفرانی طاقتیں جمہوری نظام کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور ملک کو آمریت / ڈکٹیٹر اور ہندو راشٹر کی طرف لے جانا چاہتی ہیں، اور یہ طاقتیں سیکولرزم کے تانے بانے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کررہی ہیں
،اس وقت ہر انصاف پسند، امن پسند اور ملک کے خیر خواہ کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ملک و ملت کی بقا و سلامتی کے لیے اپنی صلاحیتوں، ذہانتوں اور اپنے اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کریں اور اس پودے کو نہ اکھاڑیں اور نہ مرنے دیں، جو سانپ اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کو اپنے سے قریب آنے نہیں دیتا ۔
لیکن افسوس کہ ایک بڑی تعداد اور کچھ خاص ذہنیت کے لوگ اس پودے کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مرجھائے اور اکھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اپنے ضمیر کا سودا کرکے، مذہب کا چولا پہن کر ، مذہب و ملت کا نام لے کر، اور سیاسی مسیحا بن کر ہندوستان کو فرقہ پرست عناصر کے حوالے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اس وقت جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں ریاستی انتخابات ہورہے ہیں اور یہاں سیکولر پارٹیوں کو ہرانے کے لیے،
ہر حربے استعمال ہو رہے ہیں ،خود اس میں مسلمان بہت سی جگہوں پر پیش پیش ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ ہم کسی طرح جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،لیکن اس کے باوجود سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں، اور دشمن کا آلئہ کار بنے ہوئے ہیں ۔
ماضی کی طرح آج بھی ہماری قوم میں اپنے مفادات کے لیے سودا کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ، کوئی سیاسی مسیحا بن کر سودا گری میں مصروف ہے کوئی چرب زبانی اور قلم کاری سے ضمیر کو بیچ کر خود اپنی صفوں کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے ۔۔۔
اس وقت ضرورت ہے کہ دو برائیوں میں سے ہلکی برائی کو اور دو ضرر میں سے اخف ضرر کو مجبورا قبول کرلیا جائے اور ملک کی سالمیت کی فکر کی جائے اور امن و امان صلح و آشتی کی فضا کے لیے منظم طریقے سے کوشش کی جائے ۔
میں پھر یہاں اس کی وضاحت کر دوں کہ سیکولرزم کسی معنی اور تعبیر میں اسلامی نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ دینی اور شرعی اصطلاح ہے، بلکہ یہ محض سیاسی اصطلاح اور تعبیر ہے ۔لہذا جہاں معتدل حالات میں مسلمان اسلام کا مبنی بر عدل نظام حکومت برپا کرسکتے ہوں وہاں سیکولرزم یا جمہوریت دینی اور شرعی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے ۔ہاں غیر مسلم ممالک میں جہاں جمہوریت اور غیر مذہبی(غیر مسلم مذہبی) آمریت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی مجبوری ہے، وہاں نسبتاً ہلکی برائی کے طور پر جمہوریت کو اختیار کیا جائے گا، تاکہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے ۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے