مولانا اسامہ قاسمیؒ کی فعالیت سے پورے ملک کو فائدہ ہوا، ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

علماء کی ذمہ داریوں میں دین کی تشریح، تفہیم اور مجادلہ سب شامل۔ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم میں علماء و ائمہ کے جلسے سے خطاب

کانپور۔جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جامع مسجد اشرف آباد جاجمؤ میں ”موجودہ حالات میں علماء اور ائمہ کی ذمہ داریاں“ عنوان سے جلسہ منعقد ہوا۔جس سے خصوصی طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے خطاب کیا۔جامعہ پہنچ کر مدرسہ کے بانی مجاہد اسلام مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کانپور کا ذکر ہوتا تھا تو مولانا کا خیال آتا تھا۔ مولانا کی فعالیت سے پورے ملک کو فائدہ حاصل ہوا۔ ان کی خدمات بہت ہیں۔ کانپور اور مولانا دونوں لازم وملزوم تھے۔
علماء وائمہ کو مخاطب بناتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ علماء کی ذمہ داریاں جہاں دین کی تشریح کی ہے وہیں عقائد کا تحفظ اور معترضین کو جواب دینا بھی داخل ہے۔ مولانا نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا کہ ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کوسمجھتا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ شرعی امور کو گرچہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں لیکن یہ ان کے ذمہ لازم ہے، لیکن دوسرا طبقہ شریعت کے خاص احکاموں کی ہی نفی کرتا ہے، دین کی غلط طریقے سے تشریح کرتا ہے۔ ان کو مسکت جواب دینا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں سے بحث ومباحثہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ علماء وائمہ کو اس کی طرف توجہ دینے کے لئے تیاریاں کرنی چاہئے۔ پہلے علماء سے لوگ مسئلہ مسائل کے بارے میں پوچھتے تھے انہیں بتادیا جاتا تھا یہ جائز ہے یہ ناجائز ہے۔ یہی ان کے لئے کافی ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسئلہ کے ساتھ دلیل کا بھی تقاضہ کیا جانے لگا، علماء اس کا مدلل جواب دینے لگے۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ ایسے ایسے فتنے وجود میں آرہے ہیں جن کا سو سال پہلے گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب لوگ شریعت کے احکام اور مسائل صرف شرعی دلیل پر مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں شریعت کے ذریعہ بتائے گئے امور کے بارے میں یہ بتانا پڑ تا ہے کہ یہ شریعت کا حکم کس طرح فطرت کے عین مطابق ہے۔ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیوی مفاد بھی ہیں۔ مولانا نے علماء کو گہرائی سے مطالعہ کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کا بھی علم ہونا چاہئے۔ ہم جب ملک کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا ذکرکرتے ہیں تو ہماری گھنٹوں کی تقریر کو دوجملوں میں ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے گئی تھی اس لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔ ہمیں جنگ آزادی میں اکابر کی قربانیوں کے ساتھ یہ بھی بتاناہوگا کہ ملک کو مسلمانوں نے کیا دیا۔ جب یہاں مسلمان آئے تو یہاں کی تہذیب کیسی تھی۔ یہاں کا رہن سہن کیسا تھا۔ مسلمانوں نے اس سلسلے میں کیا خدمات انجام دیں۔ ملک کی ترقی وتہذیب وتمدن میں کیا کردار ادا کیا۔
مولانا نے علماء وائمہ کو خاص طور پرمغرب کی طرف سے آنے والی برائیوں کی طرف توجہ دلائی۔ اس کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ برائیوں کو اچھائی کے لبادے میں چھپاکر دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ مولانا نے کہا کہ دنیامیں جتنے بھی مذاہب آئے فطرت کے مطابق ہیں۔ اسلام تو عین دین فطرت ہے۔مغرب نے شہوت وخواہش کومد نظر رکھ کر نظام چلایا اور لوگوں کی آزادی اور من مطابق زندگی گزارنے کے حق کی اس قدر طرفداری کی کہ وہ فطرت سے متصادم ہوگئی۔ مرد وعورت کے درمیان شادی جو عین فطرت ہے اس کو بھی بدل دیا اور کہا کہ لوگوں کی مرضی۔ عورت،عورت سے شادی کرسکتی ہے اور مرد، مرد سے۔ زندگی گزارنے کے لئے شریعت نے جو نظام قائم کیااس کے خلاف خواہشات کی پیروی میں اخلاق سوز اور معاشرہ وخاندان کو تباہ وبرباد کرنے کا نظام قائم کیا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کے نظام کے دلدادہ ہورہے ہیں۔ مغرب کی طرف سے وضع کئے گئے دلائل کو پیش کرتے ہیں۔ علماء کی ذمہ داری کہ وہ دلائل کے ساتھ شریعت اس طرف تشریح کریں کہ وہ مطمئن ہوجائیں۔ انہیں بتائیں کہ شریعت نے جو نظام بنایا ہے وہ کس طرح فطرت کے مطابق ہے۔ دنیا میں اس کے فوائد کیا ہیں۔ علماء حالات کے تقاضے کے مطابق اپنے آپ کو تیار کریں۔
مدرسہ مظہر العلوم کے صدرالمدرسین ومفتی اعظم شہر کانپور مفتی اقبال احمد قاسمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء اپنے وقار ومرتبے کو پہنچانیں اور مجلسوں کو برائیوں سے پاک رکھیں۔ علمی استعداد کو مضبوط کریں۔
حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیئر مین مفتی عبدالرشید قاسمی نے کئی اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ علماء خطابت کے علاوہ درس قرآن، درس حدیث اور درس فقہ کی مجلسیں قائم کریں۔ انہوں نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے استدعا کی کہ فقہ اکیڈمی یا کسی اور تنظیم کے ذریعہ علماء وائمہ کے لئے خصوصی تربیتی کیمپ کا انتظام کیا جائے۔ مولانا رحمانی صاحب نے اس بات کو پسند کیا اور اس ضمن میں صلاح ومشورہ کرکے حتمی شکل دینے کی بات کہی۔
اس سے قبل مولانا خالد سیف اللہ کی آمد پر جامعہ کے ناظم مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے تمام اساتذہ و طلباء کے ساتھ مہمان مکرم کا زور دار خیر مقدم کیا۔ مولانا عبداللہ قاسمی نے جامع مسجد اشرف آباد اور یہاں قائم ادارے کی تاریخ اور تفصیلات بیان کی۔ ناظم تعلیمات مفتی عثمان قاسمی نے کلمات تشکر پیش کرنے کے ساتھ خواہش ظاہر کی جب بھی حضرت کانپور تشریف لائیں توہمیں استفادے کا موقع عنایت فرمائیں۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں علماء، حفاظ اور ائمہ مساجد سے شرکت کی۔ مدرسہ کے تقریباً تمام اساتذہ اور طلبہ بھی موجود رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے