قسط سوم:
**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
(امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار)
**جامعہ مدنیہ سبل پور میں تقرری، ادارت اور تدریس کی ذمہ داری:**
تخصص فی القضا والافتاء کی تکمیل کے بعد مولانا مفتی خالد انور پورنوی نے المعہد العالی، امارت شرعیہ سے رخصت لی اور اپنے آبائی گھر واپس تشریف لے گئے۔ یہ بابرکت وقت ماہِ رمضان کا تھا، اور اسی مقدس مہینے میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سفرِ حرمین کا ارادہ کیا۔ جب حضرت، حرمین شریفین کی زیارت اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو مفتی خالد انور پورنوی نے حضرت سے فون پر رابطہ کیا۔
حضرت نے شفقت بھری آواز میں فرمایا: "ایک بار آجائیے۔” حضرت کا یہ فرمان گویا حکم کے مانند تھا، لہٰذا مفتی خالد انور پورنوی نے بلا تاخیر ملاقات کا قصد کیا اور فوراً حضرت کی خدمت میں پہنچے۔ ملاقات کے دوران حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے محبت اور شفقت سے نوازتے ہوئے فرمایا: "رمضان کے بعد آہی جانا ہے۔”
حضرت کے ان الفاظ نے مفتی خالد انور پورنوی کے دل پر ایک انمٹ نقش چھوڑ دیا اور ان کے دل میں دینی خدمت کے عزم کو مزید تقویت بخشی۔ حضرت کی یہ نصیحت نہ صرف ایک محبت بھرا پیغام تھی بلکہ ایک رہنمائی بھی، جو مفتی خالد انور پورنوی کے لیے آنے والے دنوں میں دین و ملت کی خدمت کا ایک روشن مینار ثابت ہوئی۔ حضرت کے اس فرمان نے ان کے عزم اور حوصلے کو جلا بخشی، اور انہیں علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھنے کی راہ دکھائی۔
**جامعہ مدنیہ سبل پور کا سفر:**
ماہ رمضان کے بعد، غالباً پندرہ شوال کو، مولانا مفتی خالد انور پورنوی اپنے گھر سے مختصر سا سامان لے کر جامعہ مدنیہ سبل پور، پٹنہ کے لیے نکلے۔ آپ کے ساتھ محمد اصغر بھی تھے، جو داخلہ کی غرض سے وہاں جا رہے تھے۔ جب دونوں جامعہ مدنیہ کے جونیر سیکشن کی طرف پہنچے تو” مُل سری“ کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اچانک سامنے ایک بھاری بھرکم شخص آئے اور پوچھنے لگے: "کہاں سے آئے ہو؟” مولانا نے جواب دیا: "پورنیہ سے۔” انہوں نے کہا: "اب داخلہ کے لیے آئے ہو، یہاں داخلہ بند ہو چکا ہے۔”
مفتی صاحب نے جواب دیا: "اب تو آگئے ہیں۔” وہ صاحب کہنے لگے: "نہیں، اب آنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تمہیں پتہ نہیں ہے کہ داخلہ کا وقت کب تک رہتا ہے؟” مولانا نے جواب دیا: "میرا داخلہ ہو چکا ہے۔” وہ صاحب حیرت میں پڑ گئے اور کہا: "کیسے ہوگیا؟ کیا پڑھوگے؟” مولانا نے کہا: "عربی۔” وہ پوچھنے لگے: "کس درجہ میں؟” مولانا نے کہا: "ابھی پتہ نہیں چلا۔”
**جناب مولانا شفیع احمد صاحبؒ سے ملاقات:**
یہ صاحب، جامعہ مدنیہ سبل پور، پٹنہ کے سابق ناظم مطبخ، جناب مولانا شفیع احمد صاحبؒ تھے۔ ان کا رویہ سخت نظر آیا کیونکہ انہیں لگا کہ مفتی صاحب ایک عام طالب علم ہیں۔ مفتی خالد انور پورنوی کا دبلے، پتلے جسم اور ابھی تازہ داڑھی کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ یہ ایک نئے طالب علم ہیں۔ جب بات آگے بڑھی تو مفتی صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: "میں مفتی خالد انور پورنوی ہوں، جو امارت شرعیہ سے آیا ہوں۔” یہ سن کر مولانا شفیع احمد صاحبؒ کو اپنی غلط فہمی کا احساس ہوا اور وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ تاہم، ان کی شرمندگی جلد ہی محبت میں بدل گئی، اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں تک مفتی صاحب سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا مظاہرہ کیا۔
**جامعہ مدنیہ سبل پور میں ادارت اور تدریس کی تقرری:**
حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی ہدایت پر، جامعہ مدنیہ سبل پور میں مفتی خالد انور پورنوی کی تقرری ہوئی۔ یہاں آپ کو صرف ندائے قاسم کی ادارت کی ذمہ داری سونپی گئی، جو کہ ایک سہ ماہی علمی اور ادبی رسالہ تھا،بعدماہانہ ہوگیا۔مفتی صاحب کی خواہش پراس کے علاوہ آپ کو جامعہ کے شعبہ عربی میں درجات علیا کی تدریس کا منصب بھی دیا گیا۔ ندائے قاسم کی ادارت اور تدریس کے دونوں شعبے آپ کے لیے ایک عظیم ذمہ داری تھی، جنہیں آپ نے بھرپور محنت اور خلوص سے نبھایا۔
**ندائے قاسم کی ادارت:**
ندائے قاسم کی ادارت میں مولانا مفتی خالد انور پورنوی کی خدمات کا بہت بڑا کردار رہا۔ انہوں نے اس رسالے کو علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں مقام دلایا۔ آپ کے اداریے، مضامین اور علمی تحقیقات نے رسالے کی اہمیت کو دوچند کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف علم و دانش سے لبریز ہوتیں بلکہ موجودہ دور کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتی تھیں۔
حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی رہنمائی میں آپ نے ندائے قاسم کو ایک علمی معیار پر قائم کیا، جہاں علمی و دینی موضوعات پر مختلف معروف قلمکار کاتفصیلی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس دوران آپ نے کئی مضامین ایسی تحریر کیے اور رسالے کی تیاری میں جفاکش محنت کی، جسے حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے بہت سراہا۔
**ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ : سہ ماہی سے ماہنامہ تک سفر**
جامعہ مدنیہ سبل پور، پٹنہ کے علمی و اصلاحی ترجمان "ندائے قاسم” کی ادارت جب مفتی خالد انور پورنوی کے سپرد کی گئی، تو یہ رسالہ اپنی ابتدائی حالت میں تھا۔ مگر مفتی صاحب کی بصیرت، فکری گہرائی اور مسلسل توجہ نے اس نوخیز رسالے کو نکھار بخشا۔ اُن کے فکر انگیز اداریے اور علمی مضامین کی بدولت یہ رسالہ تیزی سے مقبولیت کی منازل طے کرتا گیا۔ عوام کے اصرار پر اپریل 2011 میں اسے سہ ماہی سے ماہنامہ کر دیا گیا، اور یوں یہ علمی و اصلاحی پیغام ہر ماہ قارئین تک پہنچنے لگا۔
اگرچہ کاغذ اور طباعت کی بڑھتی قیمتوں نے اس اشاعت کو بارہا متاثر کیا، لیکن جامعہ مدنیہ کے جواں سال مہتمم، مولانا محمد حارث بن مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی انتھک محنت اور عزم نے اس رسالے کو وقفے وقفے کے باوجود زندہ رکھا۔ آج بھی "ندائے قاسم” اپنے قارئین کے دلوں میں خاص مقام رکھتا ہے اور دینی، علمی اور اصلاحی پیغام کو پھیلانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ دینی و اصلاحی رسائل کو کسی قسم کے اشتہارات کی سہولت حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں ایسے رسائل کی بقا اور استحکام کے لیے خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ چراغ علم و ہدایت ہمیشہ روشن رہے اور آنے والی نسلوں تک دین و اصلاح کا پیغام پہنچاتا رہے۔
**جامعہ مدنیہ سبل پور میں تدریس کی خدمات:**
ادارت کے ساتھ ساتھ، جامعہ مدنیہ سبل پور میں مولانا مفتی خالد انور پورنوی کو شعبہ عربی کے درجات علیا میں تدریس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تدریس کے دوران، آپ نے اپنے طلبہ کو علم و فہم کے زیور سے آراستہ کیا اور ان کے ذہنوں میں اسلامی علوم و معارف کی محبت کو پروان چڑھایا۔ آپ کے درس میں گہرائی اور علمی مواد کی کثرت ہوتی، جو طلبہ کے علمی شعور کو نکھارتی تھی۔
**دیگر اداروں کی جانب سے دعوتیں اور وفاداری:**
جامعہ مدنیہ سبل پور میں رہتےہوئےآپ کی خدمات کا اتنا چرچا ہوا کہ مادر علمی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور ودیگر معیاری اداروں نے بھی آپ کو تدریسی وتحریری ذمہ داری کے لیے دعوت دی۔ یہ مواقع آپ کے لیے بے حد اہمیت کے حامل تھے، لیکن حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ سے آپ کی بےپناہ عقیدت و محبت نے ان تمام مواقع کو ٹھکرا دیا۔ آپ نے حضرت کے حکم پر جامعہ مدنیہ سبل پور میں ہی اپنی خدمات کو جاری رکھا، جہاں آپ کو علمی و دینی ترقی کا پورا موقع ملا۔
**جامعہ مدنیہ میں خدمات کا تسلسل (2006 تا 2024):**
مولانا مفتی خالد انور پورنوی کی جامعہ مدنیہ سبل پور میں تقرری 2006 کے آخر میں ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے مسلسل آپ نے یہاں ادارت اور تدریس کی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ آج 2024 تک، آپ کی یہ خدمات جاری ہیں، اور جامعہ مدنیہ میں آپ کا علمی سفر ایک روشن مثال بن چکا ہے۔
اس پورے عرصے میں، آپ کی محنت، خلوص اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی سرپرستی نے آپ کو جامعہ مدنیہ سبل پور کا ایک معتمد استاذ اورعصرحاضرکا محقق بنا دیا۔ ندائے قاسم کی ادارت اور تدریس میں آپ کی خدمات نے جامعہ کو علمی و دینی حلقوں میں ایک منفرد مقام دلایا ہے۔
**جامعہ مدنیہ میں علمی اور صحافتی خدمات:**
مولانا مفتی خالد انور پورنوی کی زندگی کا یہ خوبصورت مرحلہ نہایت اہم ہے، جس میں آپ نے جامعہ مدنیہ سبل پور میں تدریس اور ادارت کے ذریعے دین کی خدمات انجام دیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی سرپرستی اور محبت نے آپ کی رہنمائی کی، جس کے نتیجے میں آپ کی خدمات نہ صرف جامعہ کے لیے بلکہ علمی ،ادبی،تحریکی اور سماجی حلقوں میں بھی یادگار بن گئیں۔
آپ کی محنت اور لگن نے "ندائے قاسم” کی ادارت کے ذریعے ایک علمی و ادبی روایت قائم کی، جس نے طلبہ کی فکری نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی یہ خدمات آج بھی جامعہ مدنیہ سبل پور کے تاریخی اوراق میں محفوظ ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ کی تدریس کے اثرات اور ادارت کی کامیابیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ علم کی شمع کو روشن رکھنے میں آپ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ آپ کی زندگی کا یہ باب علمی اور دینی ورثے کی حفاظت کا علمبردار ہے، جو ہر نئے آنے والے کے لیے رہنمائی کا باعث بنتا ہے۔