مولانا ندیم الواجدی: افکاورجہات

مولانا ندیم الواجدی: افکار وجہات
عین الحق امینی قاسمی
از ہر ہند دارالعلوم دیوبند کی علمی وروحانی فضاءمیں 1996ءکے اندر جب راقم الحروف نے داخلہ لیا تومدرسہ ثانویہ آتے جاتے ایک باوقار ،وجیہ ،خوبرو، روشن پیشانی ،گولڈن عینک لگائے ،لانبا سفیدکرتا، علی گڑھ پاجامہ زیب تن، سیاہ داڑھی، گورا چٹا چھریرا قدوقامت،ہاتھ میں کالا چھوٹا بیگ پکڑے عظمت واحترام اوررعب دار دوربین فکر و نظر کی حامل ایک با بصیرت شخصیت اکثر مل جایا کرتی تھی،کبھی کبھار علیک سلیک کی نوبت آتی تو وہ زیر لب مسکرا کراپنے سراپا کانقش چھوڑجاتی۔وہ شخصیت تھی مشہور اسلامی اسکالر،مصنف ،انشاء پرداز ،سنجیدہ ،متین،سدابہار خوبیوں کے مالک محترم مولانا ندیم الواجدی صاحب (رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ)
وہ دبستان دیوبند کے قابل فخر سپوت تھے،بعد کے دنوں میں راقم کی قربتیں اور نزدیکیاں بھی بڑھیں ،ان کے رسالے میں مضامین بھی شائع ہوئےاور ان کے مفید قلمی مشورے بھی ملتے رہے۔ان کاہمارے درمیان سے اچانک شکاگو امریکہ میں موت کے ہاتھوں اٹھ جانا ،صرف "خسارہ” نہیں،بلکہ علمی دنیا کا متعدد جہتوں سے "عظیم خسارہ "ہے۔
ان کا وجود "اتحاد فکر” کی علامت کے طور پر تھا،وہ علماء دیوبند کے اکابرین واسلاف کی روایات کے”امین "تھے,بلاشبہ انہوں نے نہ صرف امانت کی حفاظت کی ،بلکہ نئی نسل میں اس بارگراں کو منتقل کر خام ذہن میں امانت کے تحفظ کا احساس بھی پیدا کیا ،اپنے معتبر قلم ،مخلصانہ ذہن اور عالمانہ شان ووجاہت کے ساتھ دین متین کی تبلیغ واشاعت کا بڑا کام کیا۔

اپنے اجلے ذہن ،دراز نفس شرافت،ذکی الحس طبیعت اور کلام وتحریر میں رس گھول کر باتیں کرنے کی صفت کے حوالے سے متآثر کرنے والی ان کی ذات ،دیوبند اور دیوبندیت کا عنوان تھی،لوگ انہیں شاید صرف "دارالکتاب دیوبند”کا مالک سمجھتے ہوں گے،جب کہ درحقیقت وہ انسانی و اسلامی اصول وآداب کے مالک جید عالم دین تھے،ان میں اپنے اکابرین واسلاف کا احترام پوری طرح رچا بسا تھا ،وہ عالی نسبتوں کے قدرداں توتھے ہی،معاصرین کےتقدس اور خوردوں کی عظمت کے بھی دل سے قائل تھے۔وہ محض عام دنیا دار تاجر نہیں تھے،بلکہ وہ ذوق ونظر ،کتاب وسنت اورعلم وآگہی کے طرف دار "ناشر” تھے ،معاشی استحکام میں بیشتر مرحلوں میں لوگ مائل بہ "دھن ” ہوجاتے ہیں،لیکن انہوں نے اشاعت دین کی وجہ سے بے نیاز زندگی بیتائی اور دین ،دنیا ،شہر ت ،دولت ،عزت اور رفعت سب کچھ پانے میں بامراد رہے ،خدا انہیں خلد بریں کا مکیں بنائے ۔

وہ کرسی توڑخطیب بھی نہیں تھے،البتہ فہم وذکاء ،افہام وتفہیم کا گن ان کے اندر پختہ تھا،وہ جب بھی گفتگو کرتے تو ذمہ دارانہ اور بابصیرت گفتگو کرتے تھے،وہ بہت چھوٹی عمر سے قلم کے دھنی واقع ہوئےتھے،ان کا قلم تصنیف مزاج ،ماحول آشنا اور باادب تھا ۔ وہ ہرموضوع پرلکھنے کی قدرت رکھتے تھے اور جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے کنہیات تک پہنچنے کی کامیاب کو کوشش کرتےتھے۔بڑے بڑوں کو وہ ادب و شائستگی سے قائل کرلینے اور رام کردینے کی خوب صلاحیت رکھتے تھے۔انہیں آسان زبان میں دل کے درد کو الفاظ میں ڈھالنا آتا تھا،انہوں نے اس جہت پر خوب لکھا اورکبھی بدمزگی کے شکار نہیں ہوئے ،انہوں نے دارالعلوم اور اکابرین دارالعلوم کے اتحاد کے لئے جو کام کیا اور بے لاگ لپیٹ کیا ،وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ،آج اگر دونوں دارالعلوم اور وہاں کے اساتذہ و طلبہ کے درمیان غیر معمولی قربت نظر آرہی ہے تو اس کے پیچھے اس "مرد دانا” کے سوز دروں کا کمال ہے ۔انہوں نے اپنے علم وقلم سے علماء دیوبند کےمنہج وافکاراور راست گوئی واعتدال کو خوب بیاں کیاہے،جس طرح ظاہر بیں میں وہ خود خوبرو، باوضع اورنستعلیقیت کے حامل تھے، اپنے افکار وجہات زندگی سمیت عمل وکرداراور حسن اخلاق وگفتارمیں بھی وہ پاک نفس تھے،

ان کی دیدہ وری، اخاذ ذہن اور صالح فکر وطبع نے معاصرین کے علاوہ بہت سے "سرتاج ” کو بھی قائل کرم کرلیا تھا ،ان پر خوردو کلاں کاعلمی ،اصلاحی دعوتی اعتماد ،حق گوئی ،برد باری ،بلکہ نششت وبرخواست ،رفتار وگفتاروغیرہ میں جو اثرات واہداف جاوداں تھے وہ صرف انہیں کا نصیبہ تھا۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب مرحوم کہنہ مشق مدرس بھی نہیں تھے ،ہاں مدرسین کو کہنہ مشق اور طلبہ کو بصیرت افروز بنانےمیں ان کا مفید مشورہ وتعاون شامل رہا کرتا تھا ،وہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ بھی نہیں تھے ،مگر اساتذہ دارالعلوم دیوبند ان کے علم وتحقیق کے قدرداں رہے ہیں ،اس سچائی کو بھی راہ دیجئے کہ عموماً اہل علم اداروں ،عوام خواص کےاجلاسوں سے متعارف ہوتے ہیں،ان کے شاگرد یا معتقدین انہیں اونچائی عطا کرنے کا راست وسیلہ بنتے ہیں ،مگر ندیم الواجدی صاحب کا معاملہ برعکس تھا ،وہ کسی تدریسی ادارے یا شاگردوں کی فدائیت وغیرہ کے بغیر دیوبند جیسی جگہ اورعلم وروحانیت کی پر نور فضامیں اپنی انفرادیت اور امتیازات و اولیات کا سکہ بٹھا نے میں پوری طرح کام یاب رہے ،یہ ان کے فکر وفن ،علمی رسوخ اور جاں کاہی کا کمال ہے ۔

بہر حال ! انسان میں جب ثبات واستقلال ،خود اعتمادی اور جاں کاہی کا جذبہ ہوتو وہ ایک دن ویرانے میں بھی” گل و لالہ” اگالیتا ہے اور "بھیڑ” میں بھی اپنی شناخت و پہچان بنالیتا ہے ،میری نظر میں اس راہ کے دوراہی ایسے رہے ہیں ،جنہوں نے علمی دنیا کو خوب فیض یاب کیا ہے،ایک نام حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند اور دوسرا معتبر نام حضرت ممدوح مولانا ندیم الواجدی دیوبندی کا لکھ دیجئے! ۔

خدا رحمت کند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے