نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری کے چند نمونے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت وبہادری کے چند نمونے

خورشید عالم داؤد قاسمی٭

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

شجاعت وبہادری ایسی قابل ستائش اور لائق تعریف صفت ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو۔ یہ صفت ایک آدمی کے جسمانی طور پر قوی وطاقتور ہونے پر منحصر نہیں ہے؛ بل کہ یہ صفت قلب وجگر کی مضبوطی پر موقوف ہے۔ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کی شجاعت وبہادری اور دلیری کے متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نہایت ہی بہادر ،شجاع اوردلیر انسان تھے۔ مشرکین سر پر کھڑے ہیں اور آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– غار میں آرام وسکون سے ہیں۔ رات میں کوئی ڈراؤنی آواز آتی ہے؛ تو آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– تنہا اس کا پیچھا کرنے چل دیتے ہیں۔ جب جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں؛ تو آپؐ پہلی صف میں دشمنوں سے مقابلہ کے لیے حاضر ہیں۔ آپؐ "أنا النّبي لا كذب، أنا ابن عبد المطلب” کا نعرہ بلند کرکے،دشمنوں کو متنبّہ کرتے ہیں کہ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– میدان جنگ سے فرار ہونے والے نہیں ہیں؛ بل کہ ڈٹ کر دشمنوں سے لڑنے والے ہیں۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی شجاعت وبہادری کے چند نمونے یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

جب رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– حضرت ابو بکر صدیق –رضی اللہ عنہ– کے ساتھ مکہ مکرّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے؛ تو مشرکین مکہ نے آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی گرفتاری پر سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا۔ اس انعام کی حرص وطمع میں بہت سے مشرکین آپؐ کی تلاش میں سرگرداں اور حیران تھے۔ ہر ممکنہ سمتوں میں تلاش کرتے کرتے، وہ لوگ "‏غارِثور” تک پہنچ گئے، جہاں آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– اور ابوبکرؓ پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان مشرکین کے قدم، ابوبکر صدیقؓ کو دکھائی دے رہے تھے۔ صدیق اکبرؓ اللہ کے رسولؐ کو مخاطب کرکے گویا ہوئے کہ اگر ان مشرکین میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے دیکھے گا؛ تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔

حضرت ابو بکرؓ کے خدشہ کو سنتے ہی رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نےشجاعت وبہادری کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اے ابوبکر! ان دونوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے؟ سوالیہ انداز میں، آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کا یہ تشفی بخش جواب، صدیق اکبرؓ کے خوف و ہراس کو ختم کرنے اور تسلی دینے کے لیے کافی تھا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ اس واقعہ کی منظر کشی یوں کرتے ہیں: "جب ہم غار (ثور) میں تھے، تو مشرکوں کے پاؤں کو دیکھا کہ وہ ہمارے سروں پر چڑھ آئے تھے؛ تو میں نے کہا: یا رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم–! ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے؛ تو یقینی طور پر ہمیں دیکھ لے گا۔” تو آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے جواب دیا: "اے ابوبکر! ان دونوں کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہےجن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے؟” (صحیح مسلم عن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ: 2381)

اللہ تعالی نے اس واقعہ کی منظر کشی قرآن کریم میں یوں کی ہے: ﴿إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾. (التوبۃ: 40)

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "یعنی ابو بکر صدیقؓ کو فکر تھی کہ جان سے زیادہ محبوب جس کے لیے سب کچھ فدا کرچکے ہیں دشمنوں کو نظر نہ پڑجائیں۔ گھبرا کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ان لوگوں نے ذرا جھک کر اپنے قدموں کی طرف نظر کی تو ہم کو دیکھ پائیں گے۔ اس وقت حق تعالی نے ایک خاص قسم کی کیفیت، سکون واطمینان حضورؐ کے قلب مبارک پر اور آپؐ کی برکت سے ابو بکرؓ کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور فرشتوں کی فوج سے حفاظت وتائید کی۔ یہ اسی تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ مکڑی کا جالا جسے "اوہن البیوت” بتلایا ہے، بڑے بڑے مضبوط ومستحکم قلعوں سے بڑھ کر ذریعہ تحفظ بن گیا۔” (تفسیر عثمانی)

"غزوۂ ذات الرقاع” سے واپسی کے موقع پر، ایک دیہاتی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے اعتماد ویقین، صبر واطمینان، شجاعت و بہادری اور توکل علی اللہ کے حوالے سے نہایت ہی ایمان افروز اور سبق آموز ہے۔ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– ” نجد” کے علاقہ میں صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– کے ساتھ جہاد کے لیے گئے۔ جب لوٹ کر آرہے تھے؛ تو آپؐ کثیر خاردار درختوں کی وادی سے گزر رہے تھے کہ قیلولہ کا وقت ہوگیا؛ لہذا آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ اُسی مقام پر رک گئے۔ صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– درختوں کے سائے میں منتشر ہوکر تھوڑی دیر کے لیے آرام فرمانے لگے۔تلوار کو درخت پر لٹکا کر، آپؐ بھی کیکر کے درخت کے نیچے قیلولہ کے لیے لیٹ گئے۔ اچانک صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– نے سنا کہ رسول اللہؐ انھیں پکار رہے ہیں۔ جب صحابہ کرام آپؐ کےپاس آئے؛ تو دیکھا کہ ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ آپؐ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہے۔

نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– سے بتایا کہ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– سوئے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نیند سے بیدار ہوئے؛ تو دیکھا کہ ایک دیہاتی (غَوْرَثُ بْنُ الحارِث) آپؐ کی تلوار جو درخت پر لٹکی تھی کو میان سے باہر نکالتے ہوئے آپؐ سے کہتا ہے کہ "تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟” اس پر آپؐ نے جواب دیا کہ "اللہ”۔ اس کے بعد، آپؐ نے اس دیہاتی کو بغیرکسی سزا اورانتقام کےرہا فرمادیا۔ (صحیح البخاري عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: 4135)

ایک خون کا پیاسا دشمن برہنہ تلوار ہاتھ میں لیے سامنے کھڑا ہے، اس خطرناک حالت کے باوجود ذرہ برابر خوف و ہراس اور کھبراہٹ،نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کے چہرے سے ظاہر نہیں ہوتی۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے نہایت ہی اطمینان وسکون کے ساتھ جواب دیا۔ وہ دیہاتی آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے توکل علی اللہ کے رعب، صبر واستقلال اور شجاعت وبہادری سے مرعوب وخائف ہو کر لرزنے لگا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ یہ واقعہ رسول اکرمؐ کی شجاعت وبہادری اور اعتماد و توکل علی اللہ کا بہترین نمونہ ہے۔ پھر اس دیہاتی سے انتقام نہ لینا، اس کو معاف کردینا اور بغیر کسی سزا دیے رہا کردینا ، آپؐ کے عفو ودرگزر کی اعلی مثال ہے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– لوگوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔(پھر آپ کی بہادری کی مثال بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ) ایک باراہالیان مدینہ منورہ رات میں (کسی آواز کی وجہ سے) گھبرا گئے۔ جدھر سے آواز آرہی تھی،لوگ اس طرف چل پڑے۔ (یہ بہادری کی بات تھی کہ بغیر کسی کو ساتھ لیے، گردن میں تلوار لٹکائے تنہا) نبی –صلی اللہ علیہ وسلم– ان لوگوں سے پہلے اس آواز کی سمت میں جاچکے تھے۔ آپؐ کی ان لوگوں سے (لوٹتے ہوئے) ملاقات ہوئی؛ جب کہ آپؐ فرما رہے تھے: "مت گھبراؤ، مت گھبراؤ!”(اس لیے کہ آپؐ اس طرف سے دیکھ کر آچکے تھے، ادھر کچھ بھی نہیں تھا۔) (صحیح البخاري: 6033)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں: "جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے اور ایک قوم کا دوسری قوم سے مقابلہ ہوتا؛ تو ہم رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص رسول اللہؐ سے زیادہ قریب دشمن سے نہیں ہوتا۔” (مسند الإمام أحمد بن حنبل: 1347، السنن الكبرى للنسائي: 8585)

عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: "جب بھی رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کا کسی فوجی دستہ سے آمنا سامنا ہوتا؛ تو حملہ کرنے والوں میں آپ اوّل نمبر پر ہوتے۔” (أخلاق النبي وآدابہ لأبِي الشيخ الأصبہاني 1/327)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں: "بدر کے دن ہم رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی پناہ میں، مشرکین سے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ اس دن آپؐ نے نہایت ہی سخت اور شدت کی جنگ کی اور کوئی بھی شخص آپ سے زیادہ قریب مشرکین سے نہیں تھا۔” (سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد 7/46)

غزوۂ حنین کے دن، جب مسلمانوں نے میدان چھوڑ دیا، نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– تنہا میدان میں جمے رہے اور دشمنوں کو للکارتے رہے۔ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کےعمّ محترم حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں: "میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے ساتھ (جنگ) "حنین کے دن” موجود تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے ساتھ ساتھ تھے، ہم آپ سے جدا نہیں ہوئے۔ رسول اللہ ؐ اپنے سفید خچّر پر سوار تھے۔ فَرْوة بن نُفاثَۃ جُذامی نے آپ کو وہ خچّر ہدیہ کیا تھا۔ جب مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مقابلہ ہوا؛ تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ رسول اللہؐ نے کفار کی طرف اپنے خچّر کو ایڑ مارنا شروع کیا( تاکہ وہ دوڑے)۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں: میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے خچّر کا لگام پکڑکر، اسے تیز دوڑنے سے روک رہا تھا۔ ابو سفیان آپ کی رکاب تھامے تھے۔ پھر رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: "اے عباس! آپ اصحاب سمرۃ (وہ صحابہ کرام جنھوں نے حدیبیہ میں بیعت رضوان کی تھی) کو آواز دیجیے!” حضرت عباس فرماتے ہیں کہ وہ بلند آواز آدمی تھے؛ چناں چہ انھوں نے بلند آواز سے پکارا: اصحاب سمرۃ کہا ہیں؟ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ بخدا جب انھوں نے میری آواز سنی؛ تو وہ اس طرح پلٹے جیسا کہ گائے اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے۔ پھر انھوں نے ‘یا لبّیک، یا لبّیک’ کہہ کر جواب دیا۔ فرماتے ہیں کہ پھر انھوں کافروں سے جنگ کی۔ انھوں نے انصار کو بھی بلایا، انھوں نے کہا: ‘اے انصار کی جماعت! اے انصار کی جماعت!’۔ پھر بنو حارث بن خزرج کو بھی بلایا۔ انھوں نے کہا: ‘اے بنو حارث بن خزرج! اے بنو حارث بن خزرج!’ پھر رسول اللہؐ ان کی جنگ کا منظر دیکھ رہے تھے؛ جب کہ آپ اپنے خچّر پر سورا تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: "ابھی لڑائی سخت ہے اور جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں”۔ پھر آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے کچھ کنکریاں اٹھائی اور آپؐ نے انھیں کفار کی سمت پھینکا۔ پھر فرمایا: "محمد کے ربّ کی قسم! وہ سب شکست کھا گئے۔” راوی کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ جنگ جاری ہے، جو میں نے دیکھا۔ پھر کہتے ہیں: بخدا! انھوں نے کنکریاں ان کی طرف پھینکی؛ چناں چہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔” (صحیح مسلم: 1775)

نبی اکرم–صلی اللہ علیہ وسلم– کے جس طرح کے واقعات یہاں پیش کیے گئے ہیں، اس طرح اور بھی واقعات ہیں۔ ان واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرمؐ بڑے بہادر اور شجاع انسان تھے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کسی طرح کا ڈر وخوف محسوس نہیں کرتے تھے۔ آپؐ نے مختلف مواقع سے اپنی شجاعت وبہادری اور دلیری کے ایسے نمونے پیش کیے کہ کوئی بھی حقیقت پسند شخص، آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی شجاعت وبہادری کا انکار نہیں کرسکتا۔····

٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے