نظریاتی اور فکری جنگ میں آپ کاکردار؟
فکرونظرـ١٣
خالدانورپورنوی،المظاہری
اب نظریاتی اور فکری جنگ چھڑ گئی ہے،ان کے وہ بابا جو اندرونِ خانہ رہتے تھے،آج وہ سبھی باہر نکل کر اپنے افکارکی تبلیغ وتشہیرکررہے ہیں،قصوں،افسانوں کو لائیوکررہے ہیں،اور بڑی تعدادمیں لوگ اسے سن رہے ہیں،بات یہاں تک رہتی توبڑی بات نہیں تھی،لیکن وہ اسلام کی غلط تشریح بھی کرنے لگے ہیں،مثلا رمضان کامعنی وہ بتاتے ہیں، ’ ’ رام کی جان ’ ’ہم اورآپ سمجھتے ہیں کہ یہ جہالت ہے،لیکن دیگرلوگ تو تالیاں بجاتے ہیں،خوش ہوتے ہیں،اوروہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک بڑی کھوج نکال دی، ہمارے بھائیوں میں سے کمزورایمان والے مسلمان بھی سنتے ہیں،جسے یہ بھی پتہ نہیں کہ رمضان ایک عربی لفظ ہے،اس کے لئے عربی سے اردو ڈکشنری دیکھناپڑے گا،اور اس جیسے باباکو عربی کے عین سے بھی واقفیت نہیں ہے،لیکن اس کاعلاج کیاہے؟اس پر وقت رہتے غورنہیں کیا،تو پھر غورکرنے کا موقع ہاتھ سے چلاجائے گا۔
اپنے پڑوس کے ملک میں دیکھ لیجئے،کس طرح سے چھکے اور چوکے کی برسات ہورہی ہے، ملحدین،غیرمسلمین سبھی بلوں سے باہرنکل آئے ہیں،اورتابڑ توڑ سوالات کررہے ہیں،اور کس خوبصورتی سے انہیں جوابات دیئے جارہے ہیں،کیاآج اس کی ضرورت نہیں ہے،اس طرح کی کوالیٹی کی ضرورت نہیں ہے،اپنے ساتھ ،دیگرادیان پر مہارت حاصل کرنے والے افراد کی ضرورت نہیں ہے،اسلام حق ہے،لیکن اس کی حقانیت کون ثابت کرے؟کیا اس کی ضرورت آپ نہیں سمجھ رہے ہیں؟
مناظرہ؛ایک مستقل شعبہ ہے،ایک مستقل فن ہے،اس کے لئے صرف صلاحیت نہیں، سیکھنے کی ضرروت ہے،تربیت اور ٹریننگ کی ضرورت ہے،کوئی آدمی کتنابھی صلاحیت مندہو ، کتابیں ازبر،اور نوک وپلک سے واقف ہوں،لیکن وہ حاضرجوابی کے فن سے واقف نہیں ہے تو وہ زیادہ دیر تک اس میدان میں ٹک نہیں سکتاہے،قرآن کریم ؛بہت ہی واضح اور دستوری کتاب ہے،وہ اس جانب ہماری رہنمائی بھی کررہی ہے،اب دیکھئے! حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام کا اس وقت کے حاکم ،با دشاہ نمرود سے مباحثہ اور مناظرہ ہوتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام وحدانیت کا اعلان کرتے ہوئے،اپنے رب کے اوصاف کو واضح انداز میں بیان کرتے ہیں: ـ’’میرا رب تو وہ ہے جن کے قبضہ میں موت بھی ہے، اور حیات بھی، وہی مارتا ہے، اور وہی ز ندگی دیتا ہے‘‘ نمرود فوراََدو شخصوں کو بلاتا ہے جو قیدی اور مجرم ہے اس کی جان بخشی کی جاتی ہے اور جو بے قصور ہے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے،اور بڑے فخر سے کہتا ہے:’’ آپ نے دیکھا میں بھی تو زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہو ں ‘‘۔حضرت ابراہیم سمجھ گئے :کہ نمرود موت و حیات کے اسرارو رموز اور اس کی حقیقتوں سے ناواقف ہے،اور نہ اتنی جلدی اتنا سمجھانا ممکن ہے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موت وحیات کے دقیق فلسفوں پر بحث نہیں کی، ورنہ تو نمرود کا مقصد پورا ہوجا تا ، اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈال کر اصل معاملہ ہی الجھادیاتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کا جواب دینے کے بجائے ان ہی پر سوال داغ دیا:’’اچھا اے نمرود! میرا خدا روزانہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب سے غروب کرتا ہے، اگر تو بھی خدائی کا دعوی کرتا ہے تو اس کے خلاف کرکے دکھا ، سورج کو مغرب سے نکال، اور مغرب سے چھپادے‘‘۔قرآن کہتا ہے: کہ نمرود یہ سن کر مبہوت اور لا جواب ہو گیا ۔
آپ کے مقابل میں کون ہے؟اور ہماراواسطہ کن سے پڑرہاہے؟ اگر اہل کتاب اور یہود و نصاری ہیں یا کوئی اور ہے جو آسمانی کتابوں کو مانتا ہے توان سے کس طرح گفتگو کی جائے گی،قرآن کریم میں مکمل رہنمائی موجود ہے،قرآن کہتاہے کہ اگرتمہارے مدمقابل اہل کتاب ہیں،تو ان سے ایسے انداز میں گفتگو کرناہےکہ : ہم آپ کی کتابوں کو مانتے ہیں،اور نبیوں اور رسولوں کو بھی مانتے ہیں،ہم سب تو ایک ہی خدا کے بندے ہیں، ہمارا معبود ایک ہے، پہلے ہی اگر ہم جارحانہ اندازاختیار کریں گے تو وہ ہم سے متنفرہوجائے گا،اور ہماری بات سننا بھی گوارہ نہ کرے گا،سورۃالعنکبوت کی آیت نمبر46میں دیکھئے! اللہ کہتا ہے: اہل کتاب سے بحث و مباحثہ مت کرومگر مہذب طریقے سے۔؛ہاں مگر جو زیادتی کریں، اور ان سے کہو ہم ان پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئی، اور ہمارا ،تمہارامعبود ایک ہے، اور ہم تو اسی کے فرمانبردار ہیں۔
ہرمدرسہ،ہرادارہ اس کام کو نہیں کرسکتاہے،ایسے افرادکی تیاری کے لئے دماغ بھی چاہئیے،رجال بھی چاہئیے،پیسہ بھی چاہئیے،جگہ بھی چاہئیے،لیکن ملک میں لاکھوں نہیں،لیکن سوسے زائدایسے ادارے ہیں،جو اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں،لیکن یہ صحیح ہے کہ آج اگر ہم نے اس پر سنجیدگی سے غورنہیں کیا،تو شایدپھرکبھی موقع بھی نہ ملے،تو آئیے ،سنجیدگی کے ساتھ سوچئے،سوچ کر آگے بڑھئے،آگے بڑھ کرکل کی تیاری شروع کردیجئے،ملت اسلامیہ پراحسان عظیم ہوگا۔
اس نظریاتی اور فکری جنگ میں اپنے گھرکے مسئلوں ،اور جھگڑوں کو چھوڑکر دیگرمسائل کی طرف خاص توجہ دیجئے،سوشل میڈیاکا استعمال اپنے اچھے خیالات اور اسلامی افکارکی اشاعت وتبلیغ کے لئے کیجئے،کوئی ایسی بات مت بولئے جو آپ کے خلاف،یاآپ کے مذہب اسلام کے خلاف دیگرکے لئے ثبوت بن جائے،نبی کریم ﷺ کی زندگی،اخلاق حسنہ،مکارم اخلاق،اپنوں اور غیروں کے ساتھ آپ ﷺ کا بہترسلوک تحقیق کے ساتھ،مدلل اور آسان لفظوں میں بیان کیجئے،یہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے!
📧 (نوٹ: معروف صحافی،استاذ محترم حضرت مفتی خالدانور پورنوی المظاہری کا کالم ‘ ‘فکرونظر ‘ ‘پڑھنے کے لئے ترجمانِ ملت ڈاٹ کام سے جڑئیے-حافظ ثمیر صدیقی،ترجمان ملت ڈاٹ کام)