نیا سال اور اسلامی تعلیمات: ایک فکری جائزہ

**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار

زمانہ اپنے محور پر گھومتا ہے، دن رات کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، اور سال اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں تو نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ دنیاوی ترتیب، یہ قدرت کے مناظر، گو بظاہر سادہ اور معمولی معلوم ہوتے ہیں، لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ محض وقت کا گزرنا یا تاریخ کا بدلاؤ نہیں، بلکہ غور و فکر کا ایک درخشاں موقع ہے۔ یہ ساعتیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کے قیمتی لمحات کو بے کار ضائع کرنے کے بجائے ان کا صحیح مصرف تلاش کیا جائے۔ اپنے اعمال کی میزان کو جانچا جائے، اپنے کردار کی اصلاح کی جائے، اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ تعلق کو مزید مضبوط کیا جائے۔

لیکن افسوس، آج ہم نے اس شعور کو ترک کرکے غیروں کی تقلید کو اپنایا ہے۔ نئے سال کی آمد پر خوشیوں کی مصنوعی رونق، آتش بازی کے شعلے، بے ہنگم موسیقی کی آوازیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کی ریت، درحقیقت وہ چمکتا دھوکہ ہے جو ہمیں اسلامی شعائر سے دور لے جاتا ہے۔ یہ سب ہماری اسلامی تہذیب اور اعلیٰ اقدار کے خلاف ہے، اور ہمارے اسلاف کی روشن روایتوں کو مٹانے کے مترادف ہے۔ ایسے مواقع پر ہمیں نہ صرف اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے بلکہ وقت کے ان لمحوں کو اللہ کی یاد، خود احتسابی، اور اصلاح نفس کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔

**نئے سال کی مبارکباد اور جشن منانے کا حکم**

اسلام کی روشن تعلیمات میں یہ اصول واضح ہے کہ ہر عمل کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی پاسداری ہو۔ کسی دن یا موقع کو محض یادگار کے طور پر منانا یا غیر شرعی خوشیوں کی بھینٹ چڑھانا، اسلامی مزاج سے یکسر متصادم ؛ بلکہ ناجائز ہے۔ نئے سال کے آغاز پر مبارکباد دینے کی روش، آتش بازی کے دھوئیں میں اپنی شناخت گم کردینا، یا موبائل کی اسکرین پر غیر ضروری پیغامات کے تبادلے میں وقت ضائع کرنا، دراصل ان روایات کی پیروی ہے جو ہمارے دین کی پاکیزگی کو دھندلا دیتی ہیں۔

حدیث نبوی ﷺ کی صدائیں ہمیں اس راستے سے روکنے کے لیے کافی ہیں:
"من تشبه بقوم فهو منهم”
(سنن ابی داود)
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں شمار ہوگا۔”

یہی نہیں، آپ ﷺ نے امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
"لتتبعن سنن من قبلكم شبرا بشبر، وذراعا بذراع، حتى لو سلكوا جحر ضب لسلكتموه”
(صحیح بخاری)
"تم اپنے سے پہلے لوگوں کی روش پر ایسے چلو گے جیسے بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ، حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوں گے، تو تم بھی ان کے پیچھے چلے جاؤ گے۔”

یہ الفاظ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ احساس دلاتے ہیں کہ اسلامی وقار کو غیر ضروری تقلید کی نذر کرنا نہ صرف ہماری شناخت کو مجروح کرتا ہے، بلکہ ہمارے ایمان کی جڑوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اعمال کو ان اصولوں کے سانچے میں ڈھالیں جو ہمیں دینِ مبین نے عطا کیے ہیں اور اپنی زندگی کے لمحات کو اللہ کی رضا کے تابع رکھیں۔

**نئے سال کے موقع پرمسلمان کا رویہ**

نئے سال کی آمد محض کیلنڈر کے صفحات پلٹنے کا نام نہیں، بلکہ یہ وقت کا ایک اٹل حقیقت کے ساتھ ہمیں روشناس کرانے کا لمحہ ہے۔ اسلام ہمیں لمحاتی خوشیوں اور سطحی جذبات کے دھارے میں بہنے کے بجائے، زندگی کے گہرے شعور اور دائمی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شریعت کی نظر میں نہ دنوں کی گنتی میں خوشی ہے، نہ مہینوں کے بدلنے میں کوئی جشن؛ بلکہ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اپنے اعمال کو پرکھیں، اپنے گزرے دنوں کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

اسلامی تعلیمات ہمیں ان وقتی جذبات اور غیر ضروری رسومات سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں جو ہمیں ہماری اصل ذمہ داریوں سے غافل کر دیں۔ نئے سال کے آغاز پر آتش بازی، شور و ہنگامہ یا تہنیت کے غیر شرعی انداز کے بجائے، ہمیں اپنے دل کو خشیتِ الٰہی اور اپنے عمل کو رضائے الٰہی کے تابع کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی زندگی کو ایک نئے رخ پر ڈال سکتے ہیں، اپنی روح کو تازگی بخش سکتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مضبوط کر سکتے ہیں۔

نئے سال کا ہر لمحہ ہمیں یہ احساس دلائے کہ وقت ایک انمول خزانہ ہے، جسے ضائع کرنا خسارے کا سودا ہے۔ خوشی تب ہے جب یہ لمحے ہماری آخرت کو سنوارنے کا سبب بنیں اور ہماری زندگی رب کی رضا کے لیے وقف ہو جائے۔ یہی وہ رویہ ہے جو ایک مسلمان کو اپنے ہر لمحے میں اپنانا چاہیے، چاہے وہ کسی سال کا آغاز ہو یا اختتام۔

**قمری سال کے آغاز پردعاکرنا**

قمری سال کا آغاز محض وقت کا بدلاؤ نہیں بلکہ یہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو رب کریم کی رضا کے تابع کریں اور اپنی روحانی حالت کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ اسلام نے ہر نئے مہینے اور سال کی آمد پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اس سے خیر و برکت طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں ایسی دعائیں سکھائیں جو ہر مہینے کے آغاز کو روحانی تازگی کا ذریعہ بناتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک دعا منقول ہے:
"اللَّهُمَّ ‌أَهِلَّهُ ‌عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ”
(مشکاة المصابیح)

ترجمہ: "اے اللہ! اس چاند کو ہمارے لیے امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کا ذریعہ بنا دے۔ (اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔”

یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر نیا مہینہ اور سال، اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم تحفہ ہے، جو ہمیں اپنے گزرے ہوئے وقت کا محاسبہ کرنے اور آئندہ زندگی کو نیکی و بھلائی کے راستے پر گزارنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ دعا ایک مکمل پیکر ہے جو ہمیں اللہ کی حفاظت، امن و ایمان کی دولت اور دین کی سربلندی کا طلبگار بناتی ہے۔

قمری سال کا آغاز ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم دنیاوی خواہشات سے نکل کر اپنے حقیقی مقصد کو پہچانیں اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالیں۔ ہر چاند کی نوید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

پس، ہمیں چاہیے کہ قمری سال کے آغاز پر اس دعا کو اپنائیں، نیک ارادوں کا عہد کریں، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے تابع کرنے کی کوشش کریں۔ یہی قمری سال کے آغاز کی حقیقی روح اور مسلمان کا اصل رویہ ہے۔

**اپنے اعمال کامحاسبہ کریں**

نئے سال کی آمد ہر مسلمان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، جو گزرے وقت کا احتساب اور آنے والے دنوں کے لیے خود کو تیار کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ہمیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ”
(سورۃ الحشر)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔”

یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کا جائزہ لیں، اپنے اعمال کی جانچ کریں اور سوچیں کہ ہم نے اپنی آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے۔ نئے سال کا آغاز ایک موقع ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر ندامت کے آنسو بہائیں، گناہوں سے توبہ کریں اور اصلاح کی راہ پر قدم بڑھائیں۔

یہ وقت صرف خوشیاں منانے یا رسمی باتوں میں گزرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی روح کو جھنجھوڑنے اور اللہ کے حضور جھکنے کا ہے۔ ہمیں اپنے دل کی دنیا کو نیکیوں سے آراستہ کرنے کا عزم کرنا چاہیے، تاکہ یہ سال ہماری آخرت میں کامیابی کا سبب بنے۔ نئے سال کی آمد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے اور ہمیں اپنے وقت کو عبادت، خیر خواہی اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وقف کرنا چاہیے۔

**غیروں کی مشابہت سے اجتناب**

اسلام کی تعلیمات کا حسن اس کی انفرادیت اور اپنی اقدار کی پاسداری میں پوشیدہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت اور تشخص کو برقرار رکھیں، اور غیر اسلامی تہذیبوں اور رسومات کی تقلید سے گریز کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"من تشبه بقوم فهو منهم”
(سنن ابو داود)
ترجمہ: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے۔”

یہ حدیث مسلمانوں کو اپنے رویے، طرزِ زندگی، اور مذہبی تشخص کی حفاظت کا درس دیتی ہے۔ آتش بازی، رقص و سرود، اور غیر اسلامی رسومات میں شرکت، نہ صرف اسلام کے وقار کو متاثر کرتی ہے بلکہ ایک مسلمان کی انفرادیت کو بھی مٹاتی ہے۔ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے ہر عمل میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھیں اور ان فضول سرگرمیوں سے اجتناب کریں جو ہمارے دین یا دنیا کے لیے فائدہ مند نہ ہوں۔

نبی اکرم ﷺ نے ایک اور اہم اصول بیان کیا:
"من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه”
(جامع ترمذی)
ترجمہ: "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان باتوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہیں۔”

یہ تعلیم ہمیں وقت کی قدر اور مقصدیت کا شعور عطا کرتی ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالے، غیر ضروری باتوں اور کاموں میں الجھنے کے بجائے اپنے دین، اخلاق، اور کردار کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔

غیروں کی تہذیب اور ان کے طریقوں کی پیروی نہ صرف اسلامی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ ہماری روحانی ترقی میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ہمیں اپنے دین کی انفرادیت کو اپنانا اور اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ یہی ایک مسلمان کا شیوہ اور دین کی اصل روح ہے۔

**نیک اعمال اور شکر گزاری کااہتمام**

اسلام ہمیں ہر لمحے اور ہر موقع پر اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نئے سال کا آغاز ایک ایسا قیمتی موقع ہے جب ہم اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ایام پر غور کر کے آئندہ کا بہتر منصوبہ بنائیں۔ قرآن کی تلاوت، دعا، صدقہ و خیرات، اور نفل عبادات کا اہتمام اس موقع پر ایک روحانی تجدید اور اللہ کے ساتھ تعلق کو مستحکم کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ وقت صرف عارضی خوشیوں کے لیے نہیں، بلکہ اپنی دنیا و آخرت کی فلاح کے لیے ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس موقع کو لغویات اور فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے روحانی سفر کو نیا آغاز دیں اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا اور عبادات سے روشن کریں۔ ہر نیا دن اور ہر نیا سال ہمارے لیے ایک نیا موقع ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور نیکیوں میں اضافہ کر کے اپنی تقدیر بدلیں۔

**آئیے عزم کریں ، کہ ہم اپنےدین اسلام کے ساتھ وابستہ رہیں گے**

نیا سال ایک مسلمان کے لیے جشن یا خوشی منانے کا موقع نہیں، بلکہ یہ وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور آخرت کی تیاری کا ایک سنہری موقع ہے۔ وقت کی تیز رفتار گزرگاہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر لمحہ قیمتی ہے۔ اسے ضائع کرنے کے بجائے اپنی زندگی کو نیکی اور بھلائی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

نئے سال کا آغاز ہمیں اپنی گذشتہ غلطیوں کا محاسبہ کرنے، اعمال کی اصلاح کرنے، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید گہرا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ احساس دلاتا ہے کہ زندگی کا ہر دن ایک نئی شروعات ہے، اور ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

یقیناً، حقیقی خوشی اللہ کی رضا کی جستجو میں ہے۔ یہ نیا سال ہمیں اپنے مقصدِ حیات کو سمجھنے اور اسے اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی کو اللہ کے احکامات کے مطابق سنوار لیتا ہے، تو یہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز بن جاتی ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے، اور جو اسے فلاح و سعادت کی منزل پر پہنچاتا ہے۔

آئیے ہم عزم کریں کہ ہم اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔ یہی عزم ہمیں دنیا کی لغویات اور بے فائدہ کاموں سے محفوظ رکھے گا اور آخرت کی کامیابی کی جانب لے جائے گا۔ ہماری یہ کوشش نہ صرف ہمارے کردار کو سنوارے گی بلکہ امتِ مسلمہ کی عزت و سربلندی کا باعث بھی بنے گی۔ یہی حقیقی کامیابی ہے، جو ایک مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے