**عبدالمجید اسحاق قاسمی**(امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار)حالیہ دنوں، حماس کے بےباک قائد اور فولاد جیسی استقامت رکھنے والے رہنما ( یحییٰ السنوارؒ ) کی شہادت نے امتِ مسلمہ کے دلوں میں ایک طوفان برپا کر دیا، ضبط کے بندھن پاش پاش ہوگئے، اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بے قابو ہو کر بہہ نکلا۔ وہ عظیم شخصیت جس کی جدائی نے ہر دل کو سوگوار کر دیا، جس کی شہادت نے مسلمانوں کے دلوں کو گہرے جذبات سے بھر دیا، اور جس کی قربانی نے ایمان کی بجھتی چنگاری کو پھر سے شعلہ جوالہ بنا دیا، وہ یحییٰ السنوارؒ ہیں۔ ان کا وجود حق و باطل کے بیچ ایک واضح لکیر کی مانند تھا، ایک ایسی ہستی جس کا نام ہی دنیا کے طواغیت اور جابرانہ قوتوں کے دلوں میں خوف اور لرزہ پیدا کر دیتا تھا۔ ان کی زندگی میں بھی، اور ان کی شہادت کے بعد بھی، استعمار کی نیندیں حرام ہیں، کیونکہ وہ حق کی جرات اور ایمان کی مضبوطی کا استعارہ بن گئے تھے۔اس مرد مجاہد کی زندگی عزم و استقلال کا وہ درخشاں باب ہے، جس نے اسلامی اصولوں کی سربلندی اور فلسطین کی آزادی کے لیے خود کو وقف کر دیاتھا۔ ان کی تربیت اور شخصیت اسلامی جہاد کی روح سے لبریز تھی، ان میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو اللہ کے برگزیدہ بندوں میں پائی جاتی ہیں: صبر کا پیکر، استقامت کی چٹان، صداقت کا نمونہ، اور ارادوں کی مضبوطی۔ ان کا نام سنتے ہی دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے، جبکہ ان کی موجودگی سے اپنے ہمت اور حوصلے پاتے۔وہ دشمنوں کے لیے خوف کی علامت اور اپنے لوگوں کے لیے امید کی کرن تھے۔ ان کی قیادت میں فلسطین کی آزادی کی تحریک کو نئی روح ملی، اور انہوں نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک بے باک قائد ہیں، بلکہ اسلامی اصولوں کے حقیقی محافظ بھی ہیں۔ ان کی بے مثال جدوجہد امت مسلمہ کے لیے تھی، اور وہ ہر حال میں دین کی سربلندی اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ان کا ہر لمحہ حق کی حفاظت اور باطل کے خلاف جنگ کا استعارہ بن گیا۔امت مسلمہ کے لیے ان کی شہادت ایک گہرا صدمہ ہے، لیکن ان کی قربانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا جوش، ولولہ، اور عزم بیدار کر دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت جن کی شہادت کی خبر سن کر دنیا کی محبتیں بے معنی ہونے لگتی ہیں، جس کی عظیم قربانی پر دلوں میں شہادت کی تڑپ جاگ اٹھتی ہے، اس کا مقام آسمان کی بلندیوں سے بھی برتر ہے۔ ان کی شہادت نے ثابت کیا کہ وہ محض ایک رہنما نہیں تھے بلکہ اللہ کے اس پیغام کی مجسم تفسیر تھے، جس میں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیا گیا ہے۔ان کی جدائی نے ہر دل کو غمزدہ کیا، مگر ان کی شہادت نے امید کے چراغ پھر سے روشن کر دیے اور ایمان کی تپش کو تازہ دم کر دیا۔ وہ شخصیت جن کی رخصتی پر دنیا کے ہر کونے میں آہ و زاری کا عالم برپا ہو، جن کا ذکر سنتے ہی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں، ان کے جانے سے زمین و آسمان کے بیچ ایک نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ان کی زندگی نے امت کو یہ سبق دیا کہ دین کی راہ میں مشکلات اور مصائب کو سینے سے لگانا ہی اصل فلاح کا راز ہے۔ وہ ایک روشن چراغ تھے، جس کی روشنی نے نہ صرف اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں کو گرمایا، بلکہ انہیں دین کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار کر دیا۔مردآہن کا ایک منفرد پہلو یہ تھا کہ ان کا نام سن کر دنیا کے بڑے بڑے جابر حکمرانوں اور استعمار پسند قوتوں کے دلوں میں خوف کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ ان کا وجود ان ظالموں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا، جو مسلمانوں کو زیر کرنے اور ان کی آزادی سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان کی شہادت پر وہائٹ ہاؤس اور تل ابیب جیسے مقامات پر خوشی کا اظہار کیا گیا، مگر اس خوشی کے پس پردہ چھپا ہوا خوف چھپائے نہ چھپ سکا۔ یحییٰ السنوار کا وجود اس دین کی زندہ دلیل تھا، جس کے پیروکار ظلم کے آگے جھکنے کے بجائے سر اٹھا کر کھڑے رہتے ہیں، جس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ایمان کی طاقت کے سامنے کوئی طاغوتی قوت ٹھہر نہیں سکتی۔ان کے لیے دنیا کی آسائشیں اور لذتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ ان کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں، اور یہ تمنا ان کی شہادت کی صورت میں پوری ہوئی۔ ان کی شہادت نے یہ ثابت کر دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی کامیابی وہی ہے، جب ایک مجاہد کی رخصتی پر نہ صرف دشمن جشن منائیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ان کی قربانی پر فخر محسوس کریں، اور ان کی عظمت کا تذکرہ دلوں کو ایمان کی تازگی عطا کرے۔اس عظیم مجاہد کی شہادت نے ان کی زندگی کے پیغام کو مزید واضح کر دیا۔ ان کی زندگی، جہاد، اور شہادت نے مسلمانوں کو یہ اہم درس دیا کہ دین کی سربلندی کے لیے، حق کے لیے، اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ ان کی قربانی نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ہمیں یاد دلایا کہ ہم سب پر ایک عظیم فرض عائد ہوتا ہے: حق کی راہ میں اپنی کوششوں کو تیز کرنا اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا۔ان کی شہادت نے مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی حرارت کو دوبارہ زندہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ دنیا کے طواغیت اور طاغوتی طاقتیں کبھی بھی حق کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور اسے ہمیشہ بلند رکھے گا۔ ان کی مثالی زندگی نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اس جہاد میں حصہ لے اور دین کی راہ میں ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یحییٰ السنوار کی طرح اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، جس پر چلنے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے، جس سے دین کی سر بلندی ہوتی ہے۔ یا اللہ! ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت کو نکال دے اور ہمیں دین کی محبت عطا کر، یا اللہ! ہمیں یحییٰ السنوار کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت اور استقامت عطا فرما۔
Related Posts
جامعہ دارارقم للبنات، چکردہ،رجوکھر،ارریہ میں حاضری
سیمانچل میں واقع سرزمین ارریہ کے مشہورعالمِ دین جناب مفتی انعام الباری صاحب کی دعوت پر سفر ارریہ کے دوران،گذشتہ…
مفتی خالدانورپورنوی: علمی سفر اور تعارف وخدمات قسط پنجم:
قسط پنجم: **عبدالمجید اسحاق قاسمی** (امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار) **علمی و تصنیفی خدمات کا…
مصنوعی ذہانت (AI) سے استفادہ کا مسئلہ
مصنوعی ذہانت (AI) سے استفادہ کا مسئلہ مفتی عبدالاحد قاسمی۔ ناظم تعلیمات جامعہ مدنیہ سبل پور، پٹنہ ”Artificial Intelligence“ ”AI“…