یہ تیرے پُر اسرار بندے
🖊 ظفر امام
__________________________________
وجود میں شعور و آگہی کی کونپلیں پھوٹنے کے بعد جب سے میں نے مدرسے کا رُخ کیا تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی اس کے بعد اکٹھے تین ماہ یا اس سے زائد کا عرصہ اپنے گھر کے آنگن میں گزارا ہو،سوائے ایک بار کے جب میرے حفظ کی تکمیل اپنے دورِ اختتام کا بوسہ لے رہی تھی اور سر پر دستار کے پیچوں کو لہرانے کے لئے صرف نصف پارے کے ختم ہونے کا انتظار تھا کہ موسمی پھوڑوں نے مجھ پر حملہ کردیا،یہ حملہ اتنا ٹیس ناک اور درد آگیں تھا کہ میں درد کے مارے دوہرا ہوجاتا تھا،ہاتھ ہر وقت سمتِ آسمان بلند رہتے تھے،جونہی ہاتھ نیچے ہوتے ایسا لگتا جیسے کوئی پوری طاقت سے رگوں کو نچوڑ رہا ہو جس سے میری چیخیں نکل جاتیں،میری اس حالتِ زار پر میرے اساتذۂ کرام کو رحم آگیا اور انہوں نے میرے انکار کے باوصف مجھے گھر بھیج دیا،اب جو میں گھر گیا تو مجھے ٹھیک ہونے میں تین ماہ چھ دن صرف ہوگئے،اس کے بعد سے آج تک کبھی تین ماہ گھر میں بسر کرنے کا اتفاق پیش نہیں آیا۔
اِس تمہیدِ طولانی کا مقصد بجز اِس کے کچھ نہیں کہ میری پوری زندگی مدرسے کی چہار دیواری میں گزری ہے،میں مدارس کے شب و روز کی زندگی سے بخوبی واقف ہوں،مدارس کے موسمِ بہار و بسنت سے نہ صرف باخبر ہوں بلکہ ایک لمبے عرصے سے انہی کا پروردہ ہوں اور انہی کی سرد و گرم چھاؤں میں زندگی بسر کر رہا ہوں، مدارس کی پانی چھوڑتی سبزی اور پتلی دال کی لذت سے بھی خوب واقف ہوں،میں مدارس کی چہار دیواری میں کسمپرس ”پُراسرار بندوں“ کی زندگانی سے بھی خوب مطلِع ہوں،مدارس میں زندگی گزارنے والے دین کے ان سودائیوں اور اسلام کے ان پاسبانوں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتیں کہ ان کی نگاہیں دال سبزی اور گوشت کے پتلے شوربوں سے اوپر اٹھ کر فائیو اسٹار ہوٹلوں اور خیرہ نگاہ ریستورانوں کی بلند و بالا عمارتوں،ان میں بچھے نرم و گداز سوفوں،آرام دہ کرسیوں اور قیمتی کھانوں کی ڈشوں سے ٹکرانے کی جرأت کرسکیں، ان کی نگاہیں تو ہمہ وقت اپنی جیب پر مرتکز رہتی ہیں اور ان کے گھر کے مہینے بھر کے اخراجات کا انحصار اسی معمولی تنخواہ پر ہوا کرتا ہے،اگر چند سکوں کی کھنک لیکر وہ مہنگے ریستورانوں کا چکر لگانے لگیں کہ جہاں پر بیٹھنے کا بھی چارج لیا جاتا ہے،تو میرا گمان ہے کہ چند چکروں میں ہی پیسے ختم ہوجائیں اور گھر میں فاقے تک کی نوبت آجائے۔(ہاں کبھی کبھی کی بات الگ ہے)
پچھلے دنوں میرا ایک شہر جانا ہوا تو میرے ایک دیرینہ دوست نے مجھے ایک ریستوران میں لے بٹھایا،یہ ریستوران اس شہر کی نئی دریافت تھا،ریستوران ہفت رنگ روشنیوں میں نہایا ہوا تھا،قمقموں اور رنگین بلبوں کے انعکاس چہروں کو قوس و قزح جیسی رنگینی عطا کر رہے تھے،ریستوران تو زیادہ بڑا نہ تھا تاہم اس کی ساخت و سجاوٹ نے اسے مہنگا ضرور بنا دیا تھا،ریستوران کا ہال آرام دہ کرسیوں،پلپلے سوفوں اور خوبصورت ٹیبلوں سے آراستہ تھا جن پر زردار قسم کے لوگ شوٹ بوٹ میں ملبوس جوڑوں کی شکل میں فروکش تھے اور وقفے وقفے سے قہقہوں کی گونج سے اپنے وجود کا احساس دلا رہے تھے،میں اور میرے دوست بھی جاکر ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے،اور حسبِ استطاعت ہم نے کھانے کا آرڈر دیا،آپ شاید یقین نہ کریں اتنا مہنگا کھانا میں نے پہلی بار کھایا،میں مہنگا اس بنا پر لکھ رہا ہوں کہ ہمارا جتنا بل آیا اتنے بل میں کسی سادہ ہوٹل میں آرام سے چار آدمی پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے اور یہاں یہ حال کہ صحیح طور سے ہم دونوں بھی آسودہ نہ ہوئے۔
بہرحال کھانے سے فارغ ہو کر ہم ایک مدرسے میں پہنچے،ہم اور جا بھی کہاں سکتے تھے کہ ہمیں مدرسے کے علاوہ کہیں سکون بھی تو نہیں ملتا،جب ہم مدرسہ پہنچے تو دیکھا کہ ایک استاذ کھانے کے دسترخوان پر بیٹھے ہیں،ان کے سامنے پتیلی میں روکھا اور سادہ چاول اور پیالے میں آلو بینگن کی ٹھنڈی سبزی تیر رہی ہے،وہ لقمہ اٹھا رہے ہیں اور بادلِ نخواستہ لقمے کو اندر کی جانب دھکیل رہے ہیں ، شاید سبزی میں مرچ مصالحہ کی کمی تھی کہ اچانک انہوں نے پاس کے کمرے میں بیٹھے کسی طالب علم کو آواز دی اور کہا:بابو مطبخ سے ایک ہری مرچ لاکر دینا ذرا“طالب علم نے ہری مرچ لاکر دسترخوان پر رکھ دی،محترم استاذ نے مرچ اٹھائی،اس کے عرق کو پلیٹ میں موجود کھانے میں نچوڑ کر مکس کیا اور آن کی آن میں پلیٹ صاف کر کے اپنے روز مرہ کے کام میں مشغول ہوگئے۔
میں جو ابھی ریستوران سے واپس لوٹا تھا یہ منظر دیکھ کر میرے دلِ نازک پر ایک کاری چرکہ لگا،شیشۂ دل چور ہوکر ریزوں میں بکھر گیا،ایک آہِ سرد نے پورے وجود کو برف کی مانند ٹھنڈا کردیا،پُتلیوں کے اُس پار آنسوؤں کی پھواریں تیرنے لگیں،میرا ذہن ریستوران کے اس پُرتعیش،آسودہ حال اور قہقہہ زار ماحول میں گشت کرنے لگا،میں یہ سوچ کر ہلکان ہونے لگا کہ آخر کار اللہ پاک نے مدارس کے پروردہ لوگوں کو بھی انسان بنایا ہے،ان کے اندر بھی ذائقہ کی قوت رکھی ہے،ان کی روحوں میں بھی خوش ذائقہ اور پُرلطف کھانوں کی خواہش ودیعت کی ہے،مگر مدارس کی چہار دیواری میں موجود دین پر مرمٹنے والے ان جنونی اور سودائی قسم کے لوگوں اور مدارس کی چہاردیواری سے باہر پُرتعیش زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے مابین یہ امتیازی خط کیوں کر کشید کیا ہے کہ اُن لوگوں کی زندگی تو قہقہوں اور الوان و اقسام کے کھانوں میں گزرتی ہے اور اِن لوگوں کی پتلی دال اور سستی سبزی میں؟
میرے پاس اس سوچ کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ یہی تو بقول علامہ اقبالؒ خدا کے غازی اور ”پُر اسرار بندے“ ہیں، جن کی ٹھوکروں سے صحرا و دریا دونیم ہوجاتے اور پہاڑ ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی بن جاتے ہیں، جن کو خدا نے ذوقِ خدائی عطا کر رکھا ہے،یہ وہ ذوق ہے جس کے سامنے دنیا کے سارے ذوق ہیچ اور بےقیمت ہیں،نصیب والوں کو ہی یہ ذوق عطا ہوتا ہے،اگر اِس روئے زمین پر خدا کے اِن پُراسرار بندوں کا وجود نہ ہوتا تو کب کا ہی دنیا کا یہ نظام معطل ہوجاتا،عالیشان ریستوران میں بیٹھ کر گرم اور پُرذائقہ کھانوں سے اپنے کام و دہن کو لذت بہم پہنچانے والوں کو ان تنگ دست بوریہ نشینوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہی کے صدقے وہ پُرتعیش زندگی گزارتے اور ایوانوں میں بیٹھ کر ٹھٹھے لگاتے ہیں۔
مگر افسوس کہ آج کے سماج میں اگر کسی طبقہ کو سب سے حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے تو وہ یہی مولویوں اور بوریہ نشینوں کا طبقہ ہے،سماج اس بات سے بہرا اور اندھا ہوگیا ہے کہ قدم قدم پر یہی مولوی اس کے کام آتا اور اس کی پریشانیاں چٹکیوں میں حل کردیتا ہے،اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو رہا سہا دین کب کا ہی سماج سے رختِ سفر باندھ چکا ہوتا یہ تو محض مولویوں کی دین ہے کہ آج دین زندہ اور پائندہ ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت زندہ رہےگا۔
بشری تقاضوں کے پیشِ نظر جب کوئی مولوی کسی کے سامنے اپنی معاشی تنگی کا ذکر کرتا ہے تو سامنے سے دلاسہ اور حاجت براری کے بجائے یہ مشورہ ملتا ہے کہ:مدرسے میں ہی پڑھانا یا امامت کرنا کوئی ضروری ہے،کرنے کو دنیا میں بہتیرے کام ہیں“ اب ان بھلے مانسوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ اگر سب”بہتیرے کاموں“ میں ہی لگ جائیں تو پھر دین کے کاموں کو کون انجام دے گا؟اور دینی علوم کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری کون ادا کرےگا؟۔
بخدا اوپری سطروں سے میرا مقصد ہرگز مدارس کی برائی کرنا نہیں کہ میرے دوشِ ناتواں تو انہی کے احسانات سے گراں بار ہیں،میری یہ بے ہنگم سی چند سطری تحریر انہی مدارس ہی کی تو رہین احسان ہے سو بھلا میں کیوں کر اور کیسے یہ جرأت کرسکتا ہوں، میرے عرض کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ مولوی طبقہ اور غیر مولوی طبقہ کی زندگیوں میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے،غیرمولوی طبقہ اپنی خواہشانہ زندگی جیتا ہے جبکہ مولوی طبقہ بخوشی اپنی خواہشات کا گلا دبا کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے،اس لئے خدارا دین کے ان بے لوث خادموں اور اسلام کے ان پاسبانوں کو ہرگز برا نہ کہا جائے،اُدھر آپ تمام فکروں سے آزاد شیش محلوں میں خراٹے لے رہے ہوتے ہیں اور اِدھر دین کے یہ مسکین محافظ پچھلی رات کو اٹھ کر ہی دین کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے لگ جاتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ زندگی کی آخری رمق تک ان مدارس سے جڑے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔۔۔ آمین یا رب العالمین
ظفر امام کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج