جذباتی نعروں میں ایک سنجیدہ آواز!
فکرونظر ____11
✍️خالدانورپورنوی،المظاہری
آج کے دنوں میں قائد بننا بہت آسان ہے،آپ انہی کی باتیں کیجئے،جذباتی گفتگو کیجئے، زمین پر ممکن ہویانہ ہو،لیکن خوب ہوائی فائیرنگ کیجئے،آپ وقت کے قائد بن جائیں گے ،دنیاآپ کو بے مثال قائد،رہبراور رہنمامان لے گی،وہ پلٹ کر آپ سے آپ کے کام ،اور کردارکے بارے میں بھی نہیں پوچھے گی،چونکہ آپ نے ان کی اوران کی چاہت کی بات کی،لیکن اگر آپ نے مرض کی تشخیص کردی،علاج کی طرف توجہ دلادی،یعنی کوئی ایسی بات کردی جو ہم سننا نہیں چاہتے،تو اسی دن سے آپ ہرخوبصورت گالیوں کے لئے تیارہوجائیے!
وہ کون لوگ تھے جو مسلم لیگ اور جناح کے جھنڈہ کے نیچے جمع تھے،قرآنی حکومت اور ہجرت کے فضائل کے نام پریہ لوگ اعلان کررہے تھے کہ اگر میرے خون کی ضرورت ہوتو اس راہ میں اپناخون دیناباعث افتخارسمجھوں گا،بھیڑ میں جمع ہونے اور نعرہ لگانے والےاپنے کان سے جناح کو سن رہے تھے جب وہ ٢٣مارچ ١٩٤٢کو دہلی میں خطاب کے دوران پوری مضبوطی سے جمعیۃ علماء ہند کے ان رہنماؤں کے بارے میں اعلان کررہے تھے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لئے قیدوبند کی صعوبیتیں جھیلیں، "کہ میں ان مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا ‘ ‘ لیکن کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھاکہ آپ کیسی بات کررہے ہیں۔٣٠مارچ ١٩٤٢ کو کان پور میں تقریرکے دوران جناح نے ہی کہاتھا:سات کروڑ مسلمانوں کی آزادی اور رہائی کے لئے اگرضرورت پڑے تو دوکروڑ مسلمانوں کے پرخچے اڑاکرآخری رسم شہادت اداکرنے کے لئے میں تیارہوں ‘ ‘ لیکن اس کے باوجود سرمایہ داروں کی اکثریت دیوانہ وار اسی کےگردجمع تھی،اسلامی حکومت کے سیاسی نعرہ میں وہ اتنے بے خود ہوگئے تھے کہ انہیں لگ رہاتھا کہ یہی ہمارے لئے مسیحاہیں،اور جو مستقبل میں زندہ رہنے کی بات کررہے تھے وہ سب سے بڑے مجرم تھے۔
اس موقع سے عظیم مورخ اور مجاہد آزادی حضرت مولاناسید محمدمیاں صاحبؒ کی یہ خوبصورت تحریرپڑھنے کے قابل ہے وہ لکھتے ہیں:جمعیۃ علماء ہند؛ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے قومی،مذہبی،سیاسی،تہذیبی،اقتصادی،وسماجی تحفظات کو پیش نظر رکھتی تھی،وہ پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے دکھ ، درداور ان کے مسائل کو سمجھتی تھی،وہ تین کروڑ فرزندانِ توحید کی لاشوں پر( پ ا ک س ت ان )کے نام پر یونیورسیٹیوں،کالجوں کے تعلیم یافتہ افراد اور مسلم جاگیرداروں کے لئے شیش محل تیارکرنے کی غلطی نہیں کرناچاہتی تھی،اس کی نگاہ میں ایک ایک مسلمان کے جان و مال ،عزت وآبرواور اس کے دین وایمان کی قدر وقیمت تھی، وہ ہر ایک کا تحفظ چاہتی تھی وہ خود غرضی کی سیاست سے بہت بلند تھی ،وہ اسلام کے پھیلے ہوئے دائرے کو پورب اور پچھم کے چھوٹے سے علاقہ میں سمیٹ دینا نہیں چاہتی تھی ، وہ اپنے اسلاف کے خون وپسینہ سے تعمیر کئے ہوئے مدارس ، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو اصطبل بنائے جانے کے لئے کسی قیمت پر بھی تیار اور روادار نہیں تھی، اس لئے پ ا ک س ت ان کو جو تقدس کا مقام دیا جارہا تھا اسے فریبِ نظر ہی نہیں فریبِ عقل سمجھتی تھی، اور اس نے اس کی مخالفت میں اپنی پوری طاقت لگادی ” _یہاں تک کہ تقسیم ہند کے فارمولے پر جمعیۃ علماء ہند کے اکابراوررہنماؤں نے دستخط بھی نہیں کئے،اور یہ اعلان کیا:
اسی گلی کے ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائینگے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں نہ نکا لے آپ کے جائینگے!
لیکن اس کے باوجود ملک تقسیم ہوا،جذباتی نعرہ لگانے والے چلے گئے،لیکن نقصان کس کا ہوا،کبھی رات کی تنہائیوں پر اس پر غور کیجئے،اور خاص طور سے ان حالات و واقعات اور حادثات کو پڑھئے جو ملک کی تقسیم کے بعد دلی کی گلیوں سے لے کر ملک کے دیگر حصوں تک رونماہوئے تھے،یہ محض فسادات نہیں تھے،بلکہ آگ وخون کی بارش تھی،ان حالات میں جمعیۃ علماء ہند ہی وہ جماعت تھی جو ٹخنوں،ٹخنوں، خون کے سیلاب میں گھس گھس کر مسیحائی کا فریضہ انجام دے رہی تھی، اوردوسری طرف خوبصورت نعرہ لگانے والے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف عمل تھے۔
دیگر جگہوں کو چھوڑئیے بہار کی راجدھانی شہر پٹنہ،ضلع پٹنہ،مضافات پٹنہ کے گرد چکر لگائیے،ہزاروں کی تعداد میں مساجد ہیں،مزارات ہیں،جو آج گائے،بیل،بھینس کا مسکن ہیں،وہاں پر ایک بھی مسلمان نہیں ہیں،فتوحہ (پٹنہ )سے قریب بیوی پور مسجد کی بھی یہی صورتِ حال تھی،اس کی تعمیروتزئین کا کام تو ہم لوگوں نے کردیا،لیکن اس کو آبادرکھنے کے لئے آج ہم ترس رہے ہیں،چونکہ چہارجانب،پانچ کیلومیٹر کے فاصلہ پر کوئی مسلمان نہیں ہیں،اور یہ صورتِ حال مختلف جگہوں پر ہے،ایسانہیں ہے کہ یہاں مسلمان نہیں تھے،تھے،مگروہ سب جذبات کے رومیں بہہ گئے، ان کے پاؤں کے نشانات ضرور ہیں،ہاں مگروہ نہیں ہیں،اس لئے نشانات مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں،جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اہم رکن امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے جامع مسجد دہلی سے جو آواز لگائی تھی،کاش اگر لوگ مان لیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ان جذباتی نعروں کے بجائے جمعیۃ علماء ہند نےمتحدہ قومیت کا تصورپیش کیا،اورتمام ہندوستانیوں کومتحدہ قومیت کی مضبوط لڑی میں پرونے کی پرزور مہم چلائی،شیخ الہند مولانامحمود حسن ؒ نے اس کی بھی وضاحت بھی فرمائی تھی کہ اپنے وطن کے کسی فریق کے مذہبی امورمیں کوئی فریق دخل اندازی نہ کرے اور ہرگزایساطریقہ کاراختیارنہ کرے جس سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو،شیخ الہند کے اس ارشادگرامی کو تمام سیاست دانوں نے بسروچشم قبول کیا،اور سیکولراز م کی بنیاد بھی اس بات پر رکھی گئی،کہ مذہبی معاملات سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو،1926میں دہلی کے باڑہ ہندوراؤمیں ایک اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمدمدنی ؒنےاسی قومی اتحادکی وکالت کرتے ہوئے فرمایاتھا:قومیں اوطان سے بنتی ہیں،مذہب سے نہیں‘‘۔امام الہند مولاناابوالکلام آزادؒ جوجمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ کے رکن تھے ،ان کا یہ بیان تو بہت مشہور ہے ،وہ فرماتے تھے :کہ اگرآسمان سے کوئی فرشتہ اترکرآئے اوریہ کہے کہ ہندوستان کوآزادی ملی سکتی ہے،بشر طیکہ وہ ہندومسلم اتحادسے دست بردارہوجائے تو میں ہندوستان کی آزادی سے دست بردارہوجاؤنگا،لیکن ہندومسلم اتحادسے دشت بردارہوناپسندنہیں کرونگا ۔
ملک کی آزادی کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے عملی سیاست سے اپنے آپ کو دورکرلیا، ١٩٤٩ میں،لکھئومیں منعقد جمعیۃ علماء ہند کے سولہواں اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی ؒ نے فرمایاتھا:بہت آسان تھاکہ جمعیۃ علماء ہند سیاست کا بھی دعویٰ کرتی رہتی، اور جداگانہ سیاست کے عادی کروڑوں مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کرلیتی،مگریہ مسلمانوں کے حق میں خیرخواہی نہ ہوتی،اس کے حقیقی معنی یہ ہوتے کہ زہرکے پیالے کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی جارہی ہے،اور دودھ کی نمائش کرکے سم قاتل ان کے حلق کے نیچے اتاراجارہا ہے،ملک کی ایک خیرخواہ جماعت ہرگز ایسانہیں کرسکتی تھی،کیامشترک انتخاب کی موجودگی میں کسی اقلیت کے لئے یہ مفید ہوسکتاہے کہ وہ سیاسی پلیٹ فارم جداگانہ بنائے؟ ‘ ‘
آج سے پانچ،چھہ سال قبل دانشوروں کی ایک اہم مٹینگ میں،ہم بھی مدعوتھے،امارت شرعیہ کے سابق امیر شریعت جناب حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحبؒاس میں تشریف فرما تھے،بلکہ حضرت کا ہی اہم خطاب ہوناتھا،اس نشست کا اہم کاعنوان تھا:حکومت میں ہماری حصہ داری کیسے ہو؟لمبی،چوڑی باتیں لوگوں نے کیں،اپنے جذبات سے آگاہ کیا،ایسالگاکہ یہاں سے اٹھیں گے اور کل ہی ہم مسلمانوں کی حکومت اس ملک میں بن جائے گی،جب سب نے سب کچھ کہ دیاتوحضرت سابق امیر شریعتؒ کا خطاب شروع ہوا،یہ مٹینگ بندکمرے میں تھی ،اس لئے خطاب کا انداز سوال وجواب والاہی تھا،فرمانے لگے:اگر کام کرناہے،تو اتنی دورابھی مت جائیے،اس لئے کہ: اپنی حکومت یاحکومت میں پاور تو دور، ووٹ دینے کے بھی ہم قابل نہیں ہیں،اورنہ اب ہماری ضرورت محسوس کی جارہی ہے،اگر آپ ووٹ نہیں دیں گے تو کچھ فرق پڑنے والانہیں ہے،یوپی الیکشن میں بھی ہم نے دیکھا،اورگجرات الیکشن میں اس کاخوب نظارہ ہوا،اس لئے اس بحث کو چھوڑئیے، ہمارے افرادکیسے بڑھیں؟ اورزمینی طاقت میں اضافہ کس طرح ہو؟اس پرتوجہ مبذول کیجئے۔غیرمسلموں میں سے پچھڑی ذاتی کے لوگ ہمارے انتظار میں ہیں،چونکہ وہ بھی ستائے ہوئے ہیں، ان سے تال میل کرکے زمینی طاقت کومضبوط کیجئے۔
مہاراشٹرا کے کسی علاقہ کا واقعہ سناتے ہوئے وہ کہنے لگے:کہ ایک مولوی صاحب تھے،رات کو اچانک ان کی بے وجہ گرفتاری ہوگئی،میرے پاس فون آیا، ہم نے ۔۔۔دلت لیڈر کو فون کیا،راتوں رات پانچ سو آادمی تھانہ گئے،اور اس طرح رات ہی کو انہیں جیل سے رہاکرناپڑا،،تفصیلی طور پر اس واقعہ کو سنانے کے بعد کہنے لگے:ابھی اس کی ضرورت ہے۔وہ کہنے لگے:ہاں ہماری مجبوری یہ ہے کہ جوکام نوےسال بعد کرنی ہے ،ہلااور شوروغل نوے سال پہلے ہی شروع کردیتے ہیں،اور آرایس ایس نے نوےسال پہلے جو کام شروع کیاتھا،اس کا شورآج ہورہاہے۔ہم آج مٹینگ میں بیٹھے ہیں،اور کل کے اخبار میں آجائے گا،اپنی حکومت بنانے کافیصلہ،اور ہوگا،کیاصفر۔
اس بات کو یادرکھئے! کہ کوئی بھی مضبوط پلان،مسلمانوں کی اکثریت کو دیکھ کر نہیں ہوسکتاہے،ہماے لئے وہ مسلمان،اور ان کی جان،مال، عزت وآبروبھی اہم ہے،جہاں وہ ایک فیصدی سے کم پر ہیں، مولاناقمرالزماں ندوی کی اس بات پر اب ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ‘ ‘ بٹوارے کے بعد اب ہمارے پاس ایک ہی اوپشن رہ گیا ہے کہ ہم صرف king maker بنیں ، king بننے کی خواہش دل سےنکال دیں۔ اس میں قومی سطح پر ہماری عزت بھی رہیگی، اہمیت بھی اور سیکولر پارٹیاں ہمارے ووٹوں کے محتاج بھی رہیں گی”
اسی گلی کے ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائینگے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں نہ نکا لے آپ کے جائینگے!
ماشاء اللہ بہت فکر انگیز مضامین ہیں۔