1599ء سے 1947ء تک کی مختصر کہانی
تلخیص و ترتیب :نسیم ظفر بلیاوی
خادم : مدرسہ اسلامیہ امدادیہ مریا ڈیہہ الہ آباد
24 ستمبر 1599ء میں انگریزوں نے مل کر "ایسٹ انڈیا کمپنی” کی بنیاد رکھی، تاکہ مشرقی جانب تجارتی کاروبار کا آغاز ہو، جس میں لندن کے دو سو سے زیادہ تجار و امراء بھی شریک تھے، 21 دسمبر 1600ء کو "ملکہ الزبتھ” نے اس کمپنی کو تجارتی منشور کے ذریعے تجارت کی اجازت بھی دے دی، اور "ایسٹ انڈیا کمپنی” کے جہاز 1601ء میں پہلی مرتبہ ہندوستان روانہ بھی کردیے گئے، اس وقت ہندوستان میں "جہانگیر بادشاہ” کی حکومت تھی اور یہیں سے ہندوستان کی سرزمین پر انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا؛ چناں چہ 1612ء میں مغربی ساحل مقام "سورت” سے کاروبار شروع کر دیا گیا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ انگریز ہندوستان آئے، اور اپنی شاطرانہ و عیارانہ چالوں سے یہیں پر قابض ہو گئے، اور لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کر دیا، انگریزوں نے دھیرے دھیرے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے، اورنگزیب عالمگیر کی وفات یعنی 1707ء تک چوں کہ "مغلیہ حکومت” کے مضبوط و مستحکم رہنے کی وجہ سے انگریز زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے، ان کی وفات کے بعد "دہلی کا مرکز” کمزور پڑ گیا، جس کی وجہ سے "ایسٹ انڈیا کمپنی” مزید اپنے بال و پر پھیلانے لگی اور اس کے بعد ایک بڑا سانحہ پیش آیا کہ "نواب سراج الدولہ” اور ان کی فوج 1757ء میں اپنوں کی غداری اور چاپلوسی کی وجہ سے شکست پائی، اور بہار میں "بکسر” کے علاقے میں 22 اکتوبر 1764ء کو انگریزوں سے زبردست لڑائی ہوئی، جس کو مورخِ انگریز "پلاسی کا تکملہ” بتاتے ہیں، نتیجۃً مغل بادشاہ "شاہ عالم” اور "نواب اودھ شجاع” کو شکست ہوئی، لہٰذا بنگال سے اودھ تک انگریز کی حکومت مستحکم ہو گئی، انگریز بنگال پر قابض ہو گئے اور کھلم کھلا ظلم و تعدی کا آغاز کردیے ۔
اس کے بعد شیرِمیسور "ٹیپو سلطان” ان کی نگاہ میں کھٹکنے لگے، کیوں کہ شیر میسور ذرہ برابر بھی ان پر رحم نہیں کرتے تھے، اور انگریز کو خوف بھی انہی سے زیادہ تھا، اس لیے وہ ان کو اپنے راستے سے ہٹانے کی تگ و دو کرتے رہے، بالآخر 3 مئی 1799ء کو "سری رنگا پٹنم” میں انہوں نے بھی جام شہادت نوش کر لیا، ان کی بھی شہادت اپنوں کی چال بازی اور غداری کی وجہ سے ہوئی، جن میں "میر صادق” ان کی شہادت کا اصل ذمہ دار تھا، پھر 1803ء میں دہلی پر سوچی سمجھی سازش کے ذریعے قبضہ کرلیا گیا اور یہ تعبیر عام ہو گئی کہ "خلق اللہ کا، ملک بادشاہ کا اورحکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا” اس کو دیکھ کر ہی 1803ء میں "شاہ ولی اللہ محدث دہلوی” کے فرزند و جانشین، فخرِ چمن اور نازشِ وطن "شاہ عبد العزیز محدث دہلوی” نے انگریز کے خلاف فتویٰ دے دیا اور ہندوستان کے "دار الحرب” ہونے کا اعلان کردیا، اس فتویٰ کا مقصد یہ تھا کہ انگریزوں کے خلاف جنگ کیا جائے اور ملک ہندوستان کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا جائے، اس فتویٰ نے پورے ملک میں کہرام برپا کردیا، انگریزوں کی نیند حرام ہو گئی، اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے، لوگوں کے حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں، علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنے مدرسوں اور خانقاہوں کو چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف محاذ بنانے کے لیے سربکف میدان میں آ نکلے اور جم کر باطل کا مقابلہ کیا؛ بہرحال "شاہ عبد العزیز محدث دہلوی” صاحب مسلسل انگریزوں سے جنگ لڑتے رہے، پھر وہ 6 مئی 1824ء کو 80 سال کی عمر میں دہلی کے اندر مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔
بعد ازاں "سید احمد شہید” بھی اس تحریک کو اپنے کاندھوں پر لے کر "شاہ عبد العزیز” کے ہمراہ ہی چل رہے تھے؛ مگر "شاہ عبد العزیز محدث دہلوی” کی فوتگی کے بعد ان پر اور ذمہ داری بڑھ گئی تھی، چوں کہ”سید احمد شہید” نے شاہ عبد العزیز کی حیات میں انہی کے ایماء و اشارے پر ایک اصلاحی و سیاسی تحریک کا آغاز کیا تھا، اس کا مقصد لوگوں کو بیدار اور آگاہ کرنا تھا، لہٰذا وہ جہاں جس علاقے میں جاتے، لوگوں میں آزادی کی روح پھونکتے، لوگوں کو بیدار کرتے، اور ان میں دینی شعور بیدار کرتے، قریہ قریہ صدائے حق لگاتے رہے، اور لوگوں کو انگریزوں کے ظلم کے خلاف ابھارتے رہے، بالآخر 7 مئی1831ء کو "سید احمد شہید” اور "شاہ اسماعیل شہید” کی قیادت میں تین سو بےلوث جیالوں نے "بالا کوٹ” کی پہاڑی پر جام شہادت نوش کر لیا ۔
"سید احمد شہید” کی شہادت کے بعد ان کے متوسلین و بہی خواہاں حضرات نے سید صاحب کی تحریک کو انہی کے منہج و اسلوب پر آگے بڑھاتے رہے، لوگوں کے درمیان جا کر دینی تقریریں کرتے، جہاد کا مضمون بیان کرتے،اور ضرورت پڑنے پر چھوٹے چھوٹے کتابچے بھی شائع کرتے تھے، ان کے متوسلین میں "مولانا قاسم صاحب پانی پتی، مولانا سید نصرالدین صاحب، مولانا شاہ اسحق صاحب اور مولانا ولایت صاحب رحمہم اللہ وغیرہ سر فہرست تھے” ہر ایک اپنے اعتبار سے اس تحریک کو اپنے کاندھوں پر لے کر چلنے میں برابر کے شریک رہے، اور وقت موعود آنے پر ان یارانِ باصفا نے ملک کے لیے خوشی خوشی اپنی جانیں دیدی، مگر باطل کو کبھی پیٹھ نہ دکھائی اور پرچم اسلام کو سرنگوں نہ ہونے دیا ۔
اس کے بعد کا زمانہ "ایسٹ انڈیا کمپنی” کے عروج و ترقی کا زمانہ تھا، کمپنی کی فوجیں تقریباً پورے ہندوستان پر قابض پا چکی تھیں، اور مغلیہ حکومت ایک لاشۂ بےجان بن کر رہ گئی تھی؛ چناں چہ جابجا ہندو مسلم کے مشترکہ جلسے ہوتے رہے، اور عوام کو انقلاب و حریت پر آمادہ کیا جاتا رہا، دہلی کے مشہور و معروف علماء کی طرف سے انگریزوں کے خلاف فتوے صادر کیے گئے، جس کے نتیجے میں اطراف و مضافات کے لوگ بھی جنگ میں شرکت کے لیے جوق در جوق شامل ہونے لگے؛ مگر ان سب کے باوجود لوگوں کی تعداد انگریز کی مسلح و منظم افواج کے سامنے بہرحال کمزور تھی، جس کی بناء پر 1857ء کے بالکل اواخر میں انگریزوں نے دہلی کا مکمل طور پر محاصرہ کر لیا اور راستہ کی تمام تر رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے، ہزاروں محبانِ وطن اور شہیدان عشق و وفا کی لاشوں کو عبور کرتے ہوئے 20 ستمبر 1857ء کو انگریزوں کا دہلی پر باقاعدہ طور پر قبضہ ہو گیا ۔
دہلی کو فتح کرنے کے بعد انگریزوں نے باشندگان ہند کو نہایت بے رحمی و بےدردی سے تہ تیغ کرنا شروع کر دیا، قتل و غارتگری کا بازار گرم کر دیا، لوگوں کو، خاص طور پر علماء کو پھانسی دینے کے لیے شہر کے ہر چوراہے پر سولیاں نصب کردی گئیں، ایک اندازے کے مطابق "پانچ لاکھ” مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس کے بعد علماء کی ایک اور جماعت آگے آئی، اور علماء کی تحریک کو اپنے کاندھوں پر لیا اور جہاد کی تیاریاں شروع کردیں، باضابطہ اعلان کردیا گیا، ہر کوئی اپنے ماتحتوں کو لے کر کسی خفیہ مقام سے انگریزوں پر حملہ آور ہوتا، اور پھر یہ خبر آتی کہ آج "فلاں مقام” انگریزوں سے چھین لیا گیا، "فلاں مقام” پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہو گیا ، مگر "حافظ ضامن صاحب” کا شہید ہونا تھا کہ یہ معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑ گیا، اس تحریک میں لوگوں نے بہت دل چسپی کے ساتھ شرکت کی، جن میں قابل ذکر اسماء یہ ہیں: مولانا قاسم نانوتوی، حافظ ضامن شہید، اور ان کے مرشد برحق "حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی” نیز اسیران مالٹا، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا علی جوہر اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ وغیرہم ۔
الغرض! 1857ء کی جنگ آزادی میں ہر ایک نے اپنے اپنے حلقہء اثر میں ہر ممکنہ قربانیاں پیش کیں، ہر محاذ پر باطل کا مقابلہ کیا، ضرورت پڑی تو گولیاں چلائیں اور ضرورت پڑی تو تلوار پھینک کر قلم اٹھا لیا اور بھی دوسرے مذاہب کے لوگ شرکت کرتے رہے؛ مگر تحریک کے روح رواں اور سالار مسلم علماء کرام ہی رہے؛ چناں چہ خود "ڈاکٹر ولیم” لکھتے ہیں : آزادی کی جنگ سب سے زیادہ مسلم نے لڑی ہے، اور جب تک ان کے دلوں میں جذبہء جہاد ہے، ہم اس وقت مسلمانوں پر حکومت نہیں کر سکتے، اس لیے ان کے جذبہء جہاد کو کمزور کرنے کے لیے قرآن کوختم کرنا ضروری ہے؛ چناں چہ اسی کے نتیجے میں 1861ء میں بدبخت انگریزوں نے "تین لاکھ” قرآن کریم کے نسخے جلائے، اس کے بعد علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، "ایسٹ انڈیا کمپنی” نے داڑھی کرتہ والے لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا شروع کردیا، یہی وجہ تھی کہ صرف پندرہ دنوں میں تقریباً "دو لاکھ” مسلمان شہید ہوئے، جن میں "ساڑھے اکیاون ہزار علماء” تھے، 1864ء سے لیکر 1867 تک صرف تین سالوں میں چودہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا، چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا، جس پر علماء کی گردن نہ لٹکی ہوں، مسجد کے صحن میں علماء کا قتل عام کیا گیا، عورتیں اپنی عزتوں کو بچانے کے لیے کنوؤں میں کود پڑیں، بازاروں، خانقاہوں اور مسجدوں کو بالکل مسمار کردیا گیا ۔
بعد ازاں درد مند وغم خوار علماء نے 1866ء میں "دار العلوم دیوبند” کی بنیاد رکھی، تاکہ یہاں سے مسلمان اور اسلام کی بقا و سلامتی کے لیے ایسے رجال کار تیار کیے جائیں، جو انگریزوں کے پھیلائے ہوئے جالوں کو اکھاڑ پھینکیں، اور ان کے وجود کو نیست و نابود کردیں، چناں چہ "مولانا قاسم نانوتوی” کی ایماء پر ایک انجمن تشکیل دی گئی، جس کا نام "ثمرۃ الترتیب” قرار پایا، مؤرخ آزادی "مولانا میاں صاحب” اس انجمن کی مقصدِ اصلی کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ: اس انجمن کا مقصد صرف فضلاء دار العلوم دیوبند کی تنظیم مقصود نہیں تھی، بلکہ اصل مقصد ایسے باحوصلہ افراد کی تنظیم تھا، جو 1857ء کی تلافی کے لیے کام کر سکیں، اور اس کی بھرپائی پوری کرسکیں، انجمن کے قیام کے دو سال بعد ہی "مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ” کا وصال ہو گیا، جس کی وجہ سے پہلی کی طرح انجمن کی سرگرمیاں جاری نہ رہ سکیں؛ تاہم "حضرت شیخ الہند” پھر بھی رازداری کے ساتھ انجمن کے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہیں، اس کے بعد اس سطح پر اور بھی کئی تنظیمیں (جمیعۃ الانصار، نظارۃ المعارف وغیرہ) معرض وجود میں آئیں، کئی بڑے جلسے منعقد ہوئے،سب سے بڑا جلسۂ دستاربندی کا انعقاد 1911ء میں دار العلوم دیوبند کے اندر ہوا، جس میں تقریباً "تیس ہزار” افراد نے شرکت فرمائی، اس تاریخی جلسہ کا فائدہ یہ ہوا کہ تنظیمِ جمیعۃ الانصار سے عوام و خواص کی صحیح سے شناسائی ہوئی، اور جمیعۃ الانصار کی ضرورت و اہمیت عوام و خواص کے سامنے کھل کر آئی اور اس موقع پر تحریک آزادی کے بہت سے قائدین حضرات بھی دیوبند تشریف لائے ۔ پھر 1912ء میں میرٹھ کے اندر دوسرا جلسہ ہوا، اسی طرح تیسرا جلسہ 1913ء شملہ میں ہوا، الغرض بہت سی جگہ خفیہ مشورگاہیں قائم کی گئیں، اجلاس کروائے گئے، تنظیموں کی بنیاد ڈالی گئی، ان تمام کا مقصد انگریزوں کے خلاف لوگوں کو بیدار کرنا اور باخبر کرنا تھا اور خاص طور پر عوام و خواص کی ذہن سازی اور ان کی نشو و نما کرنی تھی ۔
بہرحال اس کے بعد حضرت "شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی” نے بیرونی حکومتوں سے تعاون اورتحریک کے لیے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے بعض رفقاء کو افغانستان کے دار الحکومت "کابل” جانے کا حکم دیا اور خود اپنے بعض رفقاء کے ساتھ "حجاز مقدس” کا سفر فرمایا، تاکہ خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے انگریزوں کے خلاف جہاد کے پیغام حاصل ہو، اور فوجی امداد کے سلسلے میں راہیں ہموار کی جا سکیں، چناں چہ حضرت شیخ الہند 9 اکتوبر 1915ء کو "مکہ معظمہ” پہنچ گئے، اور وہاں کے ترکی گورنر "غالب پاشا” سے ملاقات کی، اور ان کو ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کرایا، "شیخ الہند” حجاز مقدس جس مقصد کے لیے گئے تھے، وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے، مگر بعد میں جب انگریزوں کی سازش سے "شریف مکہ” نامی شخص نے تُرک حکومت سے بغاوت کرلیا، جس سے ترکوں کی فتح، شکست میں تبدیل ہو گئی، اور ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لہذا جب جنگ کا پاسا پلٹ گیا، تو حضرت "شیخ الہند” کی تحریک کے کامیاب ہونے کی راہیں بھی مسدود ہونے لگیں، پھر حکومت برطانیہ کو "عبد الحق نامی ایک نومسلم” کے ذریعے، حضرت شیخ الہند اور ان کے رفقاء کی تحریک کا علم ہوا، جس کی بناء پر یکایک وہ لوگ حرکت میں آ گئے، اور ان کو گرفتار کرنے کی پوری سعی و کوشش میں لگ گئے، اور ان کے افراد پر سختیاں کرنی شروع کر دیں، بالآخر کئی مہینوں کے بعد 1917ء میں حضرت "شیخ الہند” کو مکہ معظمہ سے گرفتار کر لیا گیا، جب کہ شیخ الہند کی گرفتاری سے پہلے شیخ الاسلام حضرت "مولانا حسین احمد مدنی” کو پہلے ہی مکہ معظمہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان کو مکہ کے کسی قید خانے میں ہی رکھا گیا تھا، جب کہ شیخ الہند کو جدہ بھیج دیا گیا تھا، مگر بعد میں پھر دونوں حضرات ساتھ ہو گئے تھے، جدہ سے مصر، پھر جیزہ پھر 16 فروری 1917ء کو مالٹا جیل بھیج دیا گیا، بالآخر حضرت "شیخ الہند اور ان کے رفقاء” کو 1920ء میں تین سال، چار ماہ، یا تین سال، دو مہینے، تین دن کے بعد مالٹا سے رہا کر دیا گیا ۔
معا بعد حضرت شیخ الہند 1920ء میں مالٹا جیل سے رہائی کے بعد وہ "جمیعت علماء ہند” میں شامل ہو گئے، جس کو ان کے شاگردوں نے 1919ء میں قائم کیا تھا، یہاں سے آزادی کا جنون اور بھی جڑ پکڑ لیا، اور شیخ الہند کی حیات میں جمعیت علماء ہند کے پرچم تلے یکے بعد دیگرے دو اجلاس منعقد کروائے گئے، تاکہ ملک کی آزادی کے لیے منظم کوششیں اور جدو جہد کی جائے، اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریزوں کے خلاف شیخ الہند نے "تحریکِ ترک موالات” کا فتویٰ بھی جاری کر دیا، جو جمیعت علماء ہند کی طرف سے 474 علماء کی دستخط کے شائع بھی کیا گیا، 21 نومبر 1920ء میں دہلی کا جلسہ حضرت "شیخ الہند” کی زندگی کا آخری جلسہ تھا؛ چناں چہ دہلی جلسہ کے 8 یا 9 دن کے بعد 30 نومبر 1920ء کو قائد حریت، انسانیت کا مسیحا، اور شیرانِ اسلام کا حقیقی جانشیں حضرت "شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ” کا وصال ہو گیا ہے ۔
اب یہاں سے ملک ہندوستان میں ایک الگ بحث و مباحثہ کا آغاز ہو گیا یعنی "تقسیمِ ہند” کا قضیہ کھل کر سامنے آگیا، شروع شروع میں تقریباً سبھی تقسیمِ ہند کے سراسر مخالف تھے، لیکن ایک وقت آیا کہ وہی لوگ جو مخالف تھے، وہ "تقسیمِ ہند” کے پکے حمایتی اور شیدائی بن گئے، لیکن علماء کرام کی جماعت "جمیعت علماء ہند” اور ان کی ہم نوا جماعتیں از اول تا آخر پورے عزم و استقلال کے ساتھ تقسیمِ ہند کی مخالف رہیں؛ کیوں کہ علماء کی جماعتیں تقسیمِ ہند کے بھیانک نتائج و عواقب سے واقف اور شدید ترین فتنہ و فسادات اور خون خرابے کے اندیشہ و خطرہ سے بہ خوبی واقف تھیں؛ مگر چند لوگوں کی شاطرانہ چالوں کی بدولت علماء کی نصیحتیں مفید اور پائدار ثابت نہ ہو سکیں، اور کسی نے مخلص علماء کرام کی بات پر توجہ نہ دی؛ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے گورنر جنرل "لارڈ ماؤنٹ بیٹن” نے آزادئ ہند سے متعلق ایک طویل اعلانیہ جاری کیا اور تقسیمِ ہند کی منظوری عمل میں آ گئی، پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب ہندوستان کی حریت و آزادی کا باقاعدہ طور پر اعلان کر دیا گیا، اس طور پر ہندوستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا ۔
الغرض ! جس دن کا ہندوستانیوں کو بےصبری سے انتظار تھا، جس دن کے لیے انہوں نے بےپایاں قربانیاں پیش کی تھیں اور ان گنت جان کے نذرانے پیش کیے تھے، سالوں کی بدترین غلامی اور محکومی کے بعد باشندگانِ وطن کو وہ صبحِ آزادی دیکھنے کی توفیق میسر آئی؛ اس لیے پندرہ اگست کی آمد پر فرحت و مسرت اور خوشی و انبساط کا ہونا یہ فطرت کے عین موافق ہے ۔
اخیر میں آپ سے بس اتنی گزارش ہے کہ جنگِ آزادی کی تاریخ بڑی طویل اور کربناک ہے، ہندوستان کی عوام خاص طور پر ان گنت علماء اور مسلمانوں کی قربانیوں اور مجاہدوں کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں بہت مشکل ہے، اس میں جنگ آزادی کے واقعات کو بطور خاکہ پیش کرنے کی سعی و کوشش کی گئی ہے، وہ بھی ناقص ہے، اس لیے آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور مسلمانوں کی تاریخ کو خود جانیں، پڑھیں اور ان بےلوث نوجوانوں، قائدوں اور جیالوں کو خراجِ عقیدت پیش کریں اور بالخصوص ان کے دردناک واقعات، ان کی انتہک جد وجہد اور ان کی بےمثال و لازوال قربانیوں سے اپنوں اور بیگانوں کو روشناس کرائیں ۔
8 صفر المظفر 1446ھ بمطابق
14 اگست 2024ء بروز چہار شنبہ