"”مولانا آزاد رح اکابر اور معاصر کی نظر میں””
۱۱/ نومبر ۲۰۲۱ء بروز جمعرات یوم تعلیم کی مناسبت سے مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ کے زیر اہتمام مولانا محی الدین ابو الکلام آزاد رح کی حیات و خدمات پر سرزمین دگھی ضلع گڈا جھارکھنڈ میں کمشنری سطح کا ایک ایک علمی سمینار کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں تقریبا تیس مقالہ نگار اور بہت سے اہل علم و دانش شریک ہوئے تھے، جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی، جبکہ کل حاضرین کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی،ایک نوجوان فارغ عزیز القدر مرغوب الرحمٰن ندوی نے اپنا مقالہ،، مولانا آزاد رح معاصرین اور اکابر کی نظر میں،، پیش کیا تھا ،اس مقالہ میں اکابر کی تحریروں سے اقتباس پیش کیا گیا تھا، مضمون یقینا پر لطف اور معلوماتی ہے، اس لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔
"” مولانا ابو الکلام آزاد رح معاصرین اور اکابر کی نظر میں "”
مرغوب الرحمٰن ندوی
دگھی، مہگاواں، گڈا، جھارکھنڈ
موقر صدر اجلاس،حضرات علماء کرام اور معزز حاضرین! آج ہم سب کے لیے انتہائی مسرت و سعادت کی بات ہے کہ سرزمین دگھی میں ہندوستان کی ایک عظیم، عبقری اور انقلابی شخصیت مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد رح کی حیات و خدمات پر ایک وقیع سمینار منعقد ہو رہا ہے، جو اپنی نوعیت کا پہلا سمینار ہے، یقینا اس کا سہرا مشہور صاحب قلم استاد محترم مولانا محمد قمر الزماں ندوی کے سر جاتا ہے کہ انہوں مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت اس پروگرام کو منعقد کیا اور قافلئہ علم و ادب کو ایک جگہ یکجا کیا، ہم مولانا کو ان کے اس عزم و ارادے اور حوصلے پر سلام پیش کرتے ہیں۔
محترم سامعین میری دلی خواہش تھی کہ میں اس پروگرام میں مولانا آزاد رح کی زندگی اور ان کے علمی و سیاسی کارنامے پر شرح و بسط کے ساتھ مقالہ لکھوں، لیکن استاد محترم کا حکم ہوا کہ ،، مولانا آزاد رح معاصرین اور اکابر کی نظر میں۔۔ اس عنوان پر لکھوں اور ان اکابر کے اقتباسات کو پیش کروں۔ یہ کام مستقل مقالہ لکھنے سے بھی مشکل تھا، لیکن ہم نے تھوڑی بہت طالب علمانہ کوشش کی ہے، انہیں چیدہ اور منتخب اقتباسات کو آپ سامعین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
آغاشورش کاشمیری مرحوم اپنی کتاب مولانا ابو الکلام آزاد سوانح اور افکار صفحہ ۳۸/۳۹ میں مولانا کے بارے میں لکھتے ہیں
،، قدطویل نہ قلیل، متوسط القامت، اکہرابدن، نازک الجثہ، سرخ وسپید رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، متحرک اور روشن، آخری عمرمیں رنگ دارعینک کے شیشے ان کاغلاف تھے، اس طرح پیشانی کی شکنوں اور آنکھوں کی لہروں سے پتاچلانامشکل تھاکہ ان کے ذہنی پس منظرمیں کیاہے؟ چہرہ کتابی، ڈاڑھی کچی، آوازمیں جمال وجلال، عجم کے حسنِ طبیعت اور عرب کے سوزِ دروں کی تصویر، طبیعت باغ وبہار، فطرت کم آمیز، مزاج میں سطوت، عوام سے بے نیاز، ان سے ملنا جوے شیرلانے سے کم نہ تھا، اس حدتک خلوت پسند تھے کہ تنہا آئے اورتنہاچلے گئے، فقرواستغناکے پیکراورصبرِ جمیل کامجسمہ، کئی کئی دن مہمان شرفِ ملاقات سے.محروم رہتے، گفتگوکے بادشاہ، علم کے بحرِ ناپیداکنار، خطابت کے شہسوار، قلم کے ایسے دھنی کہ بہ قول رشید احمد صدیقی الفاظ کو ربوبیت ونبوت کاجامہ پہنادیتے اوردماغ سوچنے کی بجاے پوجنے کی طرف چلاجاتا، اردوزبان کے سب سے بڑے خطیب (Orator)لیکن مجمعوں سے نفور، سفرکے دل دادہ، سیاست دانوں میں عبقری، حافظہ بے پناہ، کتابوں کے دوست، مطالعے کے مجنوں، قرنِ اول کے شہ دماغ مسلمانوں کی تصویر، عیب بینی اورعیب چینی سے متنفر، قرآن کے مفسر، کلام اللہ پربقول حسن نظامی اتناعبور کہ مصروشام کے علماے جدید بھی اس گہرائی وگیرائی تک پہنچنے سے معذور، آزادی کی جدجہدکے سالار، گم شدہ اسلاف کی یادگار، مستقبل کے نباض، چال میں طنطنہ، ڈھال میں ہمہمہ، بولتے توپھول جھڑتے، مطالب کے فرش پر الفاظ کارقص، چاروں طرف سحرچھاجاتا، وجدان جھومنے لگتے، سماعت موتی رولتی، اٹھارہ سوستاون کی خوں خواری کے بعد انیس سودس میں اسلام کی پہلی آواز، جس نے مسلمانوں کی پلکوں سے نیندیں اتاریں اوران کے کانوں کاجھومر بن گئی، ان کے دلوں کانگینہ اوردماغوں کاسفینہ ہوگئی ـ
لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی دوعظیم ہستیوں میں ایک اقبال تھا، جوبے بصر عقیدت کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا ابوالکلام تھا، جوحصولِ آزادی کے آخری ایام میں مسلمانوں کی غضب ناک نفرت کاشکار رہا، ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ہر زبان میں اس کو گالی دی، وہ اردوزبان کاسب سے بڑاادیب، سب سے بڑاخطیب اورسب سے بڑاسیاست داں تھا؛لیکن ڈاکٹرذاکرحسین کے الفاظ میں ’’اردوزبان کی ایسی کوئی گالی نہ تھی، جومسلمانوں نے اپنے اس سب سے بڑے محسن کونہ دی ہو‘‘، وہ گالیاں کھاتارہا اوردعائیں دیتارہا ـ
مولانا ابو الکلام آزاد رح ایک جامع اور ہشت پہل شخصیت
امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد رح کی ہمہ جہت صلاحیت اور ان کے جوہر ذاتی پر تبصرہ کرتے ہوۓ مشہور ادیب، نیاز فتح پوری نے لکھا ہے کہ ،، مولانا آزاد رح اگر عربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو متبنی و بدیع الزماں ہمدانی ہوتے،اگر محض دینی و مذہبی اصلاح کو اپنا شعار بنا لیتے تو اس عہد کے ابن تیمیہ رح ہوتے ،اگر وہ علوم حکمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے تو ابن رشد اور ابن طفیل جیسے فلسفی ہوتے ،اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوتے تو عرفی و نظیری کی صف میں نظر آتے ،اگر وہ تصوف و اصلاح کی طرف مائل ہوتے تو غزالی رح اور رومی سے کم نہ ہوتے،،
مولانا آزاد رح کو قدرت کی طرف غیر معمولی ذہانت و فطانت اور خداداد حافظہ اور حاضر دماغی ملی تھی ، جوہر خطابت قلم سیال اور انشا پردازی اس پر مستزاد،خود داری خود اعتمادی، نیز نظافت و لطافت میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز و نمایاں تھے، ان کو پہلی بار دیکھنے کے بعد مولانا علی میاں ندوی رح کے تاثرات یوں تھے:
اس وقت جہاں تک یاد ہے میں نے ان کی سب سے پہلے گنگا پرشاد میموریل ہال کے ایک جلسہ میں زیارت کی،جلسہ کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کی دعوت تھی،اور جہاں تک یاد آتا ہے، اس جلسہ میں مولانا محمد علی بھی موجود تھے،اور انہوں نے خطاب کیا تھا،جلسہ کے دوران مغرب کا وقت آیا، مولانا نے ہال کے شمالی گوشہ میں جہاں نماز کا انتطام تھا ،تشریف لے گئے،ہم سب لوگوں نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھی اور میں نے سب سے پہلے ان کو قریب سے دیکھا ،بلند و بالا قد و قامت جس کو ۰۰سرو آزاد ۰۰ کہنا ہر طرح موزوں ہوگا،کتابی چہرہ جس میں سرخی جھلکتی ہوئ، آنکھیں روشن و فراخ متبسم بلکہ متکلم، پیشانی سے خود اعتمادی اور بلند طالعی نمایاں ،لباس خالص دہلی و لکھنئو کے شرفاء بلکہ روساء کا سا سادہ لیکن حسن مذاق اور نستعلیقی ہر چیز سے عیاں ،ٹوپی ذرا بلند جس میں ان کی انفرادیت جو ان کی ذات کا جوہر بن گئ تھی، نمایاں، پاؤں میں سلیم شاہی جوتا،یہ تھے مولانا ابو الکلام آزاد جن کو میں نے پہلی بار دیکھا ،ان کی تقریر کا ایک حصہ ذھن میں محفوظ رہ گیا،انہوں نے انسانی مساوات و اخوت کا اسلامی نقطئہ نظر بیان کرتے ہوئے سنن ابو داؤد کی ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر شب میں اپنے رب سے جو سرگوشیاں اور دعاء و مناجات کرتے ہوئے سنا گیا اس میں ایک فقرہ یہ تھا ۔ *انا شھید أن العباد کلھم إخوة میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سب بندے (انسان) بھائی بھائی ہیں،،
راج گوپال اچاریہ نے مولانا آزاد کی وفات کے موقع پر کہا تھا۔ کہ عربی و فارسی اور اردو کے وہ نامور، جید عالم تھے ہی، بلکہ ایشیا میں ان کا ثانی نہیں تھا، انگریزی کی بھی وہ مشکل اور ادق کتابیں پڑھا کرتے تھے، فرانسیسی زبان کا بھی انہیں علم تھا۔۔(زندگی کا کارواں صفحہ ۱۳۲) ڈاکٹر راجندر پرشاد نے مولانا آزاد کے بارے کہتے ہیں،، فارسی میں ایک مقولہ ہے۔ بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال و توانگری بدل است نہ بہ مال،، ہماری تاریخ میں یہ بات مولانا آزاد پر سب سے زیادہ صادق آتی ہے۔۔ (زندگی کا کارواں از محمد سعید سابق ایم ایل اے و ریاستی وزیر بہار سرکار)
پنڈت نہرو نے مولانا آزاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا،،
،، ہمارے درمیان عظیم ہستیاں رہی ہیں اور رہیں گی، مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا آزاد جس نادر عظمت کی علامت تھے وہ اب ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں دوبارہ نہیں دیکھی جائے گی۔۔( مولانا آزاد کی کہانی صفحہ ۶۹)
علاقہ کی ایک عظیم شخصیت اور سیاسی رہنما سعید احمد صاحب سابق ایم ایل اے و سابق ریاستی وزیر اپنی کتاب زندگی کا کارواں میں، مولانا آزاد کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ان کے علم و فضل کے باب میں تو کچھ کہنا ہی فضول ہے۔ صرف ترجمان القرآن کا کام ہی ایسا ہے کہ وہ دنیا کے علماء میں ممتاز ہیں۔
آر کے مہاجن ایڈیشنل چیف سکریٹری محکمہ تعلیم بہار سرکار مولانا آزاد کے بارے میں لکھتے ہیں،،
مولانا آزاد ایک عبقری شخصیت کے سیاسی رہنما تھے ، انکی فکر اور فلسفے میں اتنی توانائی اور قوت ہے کہ اس کی روشنی آج بھی مدھم نہیں ہوئی ہے، بلکہ آج کی تاریخ میں ان کے نظریات اور ان کی خدمات مزید اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا آزاد ایک جدید فکر و نظر کے عالم دین اور مشترکہ قومیت کے علمبردار تھے، انہیں جدید ہندوستان کے معماروں کے اولین صف کا تسلیم کیا جاتا ہے۔۔ ((احوال واقعی از کتاب مولانا آزاد کی کہانی))