از:مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری؛ناظم:مدرسہ نورالمعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج، ضلع ارریہ و جنرل سکریٹری؛ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام ہے اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر خفیہ حملہ ہے جس کا مقصد کسی مخصوص شخص کی عزت کو نقصان پہچانا اور اس کی تحقیر کرنا ہے۔ اسی بنا پر غیبت ایک حرام فعل اور گناہ کبیرہ ہے۔
غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرادیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی ہے۔ سورہ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
اےحب احدکم ان ےا کل لحم اخیہ مےتاً فکرہتموہ (پارہ :۶۲ سورہ:حجرات آیت :۲۱ ) اللہ تعالی نے اسے مرے ہوئے اپنے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے”اورنہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ،کیاتم میں کا کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ،تم کو اس سے گھن آئے گی،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“۔
اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں غیبت کو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کی کراہیت کا خیال دلایاہے ،مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے ،اور وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو اور انسان بھی کوئی اورنہیں خوداپنا بھائی ہو ، پھر اس تشبیہ کو سوالیہ جملہ میں بیان کرکے اور زیادہ موثر بنادیاگیاہے۔ تاکہ ہر انسان اپنے دل سے پوچھ کر خود فیصلہ کر ے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے اور اگر کھانے کے لیے تیار نہیں ہے اوراس کی طبیعت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ یہ بات کیسے پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مومن بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کرسکتا۔
غیبت کبیرہ گناہوں میں ایک بڑا گناہ ہے۔ دیگر بڑے گناہوں کے برخلاف یہ گناہ بہت عام ہے اور اس میں ہر دوسرا مسلمان ملوث نظر آتا ہے۔دوسری جانب قرآن و حدیث میں غیبت کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ کہیں اس عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے تو کہیں اس عمل میں مبتلا لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرؓ ہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم نے فرمایا:تم جانتے ہو کہ غیبت کیاہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علےہ وسلم آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کاذکر اسطرح کرناکہ وہ اسے ناگوار گذرے، لوگوں نے کہا: اگروہ برائی اس میں موجود ہوتو؟آپ ا نے فرمایا: ”اگراس کے اندر وہ برائی موجود ہوتو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس کے اندر موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔“(مسلم)
غیبت اپنے بھائی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ آبرو کو نقصان پہنچانے پر بڑِی سخت تنبیہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم نے فرمایاجو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ”۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )
غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کمتر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس روئیے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔
اسی طرح دیگر روایات میں بھی غیبت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ ) صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاو ¿ گے” (ابوداو ¿د، کتاب الادب۔حدیث : ۴۸۸۰)۔
مستورد بن شداد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے۔( سنن ابوداو ¿د:جلد سوم:حدیث نمبر 1476)
اسی طرح لوگوں کی برائی بیان کرنے والوں اور ان کی عزت و آبرو کو لوٹنے والوں کی ایک عبرت ناک تصویر اس روایت میں پیش گئی ہے۔
” حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں”۔ (ابوداو ¿د رقم 4878)
اس واضح مذمت کے باوجودلوگ اس فعل میں بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ فرق ہی نہیں کرپاتے کس برائی کوبیان کرنا غیبت ہے اور کس کا بیان غیبت نہیں۔ ایک اور قسم ان لوگوں کی ہے جو غیبت کو گناہ سمجھتے اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہوتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس تربیتی مضمون کا مقصد یہی ہے کہ اس مرض کی شناعت کو واضح کیا جائے، اسکی نوعیت کو سمجھا جائے اور عملی مشقیں کرکے اس سے چھٹکارا پایا جائے۔
لیکن اگر آج ہم اپنے معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ معاشرے کے اندر غیبت جیسی مذموم خصلت اتنی عام ہوچکی ہے جس سے اہل اسلام کے اتحاد واتفاق کا جنازہ نکل گیا ہے اورایک دوسرے کی عزت وآبروپر کیچڑاچھالنا ان کا شیوہ بن چکاہے۔
معراج کے دوران جنت ودوزخ کے مناظر دکھائے گئے ،غیبت کرنے والوں کو مردار کا گوشت کھاتے دکھاےا گیا ،ےتیموںکا مال کھانے والوں کو انگارے کھاتے ہوئے دکھا ےا گیا ،سود کھانے والوں کے پےٹ بڑے بڑے کمروں کے مانند دکھائے گئے جس میں سانپ بھرے تھے۔
کیا تم مےں سے کوئی پسند کرےگا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے بس اس کو سخت ناپسند کرتے ہو تو ہر گز غیبت نہ کر۔
*غیبت کے اسباب*
• غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
• لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
• انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
• کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔
• ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔
*غیبت سے بچنے کے طریقے*
• انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔
• قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔
• موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔
• معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔
• انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہو گیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
• غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔
• سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔
*غیبت کا کفارہ*
غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اور ہر گناہ سے توبہ کا طریقہ اس کو ترک کرنا، اس پر نادم ہونا، آئندہ اسے نہ کرنے کا عہد کرنا اور ممکن ہو تو اس کے ازالے کی کوشش کرناہے۔ اگر کسی شخص کے سامنے غیبت کی قباحت عیاں ہوچکی ہے اور وہ اس عمل پر نادم وشرمندہ ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حرام فعل سے توبہ واستغفار کرتے ہوئے رک جائے ،پھر اگر وہ آدمی موجود ہو جس کی غیبت کی گئی ہے تو اس سے معافی مانگے ورنہ اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔
*غیبت کا اخروی انجام:* جولوگ دوسروں کی غیبت کرتے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا جیساکہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”جب میں معراج کو گیا تو جہنم کے مناظر میں یہ دردناک منظر بھی دیکھا کہ ایک جماعت کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے ہیں،میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ھولاءالذین یاکلون لحوم الناس ویقعون فی اعراضھم ”یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کاگوشت کھاتے تھے اور ان کی آبروریزی کرتے تھے۔“ (مسنداحمد)
*غیبت نیکیوں کو تلف کردیتی ہے*
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رؓسے پوچھا : ”کیا آپ لوگ جانتے ہیں مفلس کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو،آپ نے فرمایا: مفلس میری امت میں وہ ہے جو قیامت کے دن صوم وصلوٰة، زکوٰة سب عبادات لے کرآئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی کی آبروریزی کی ہوگی ، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کا خون بہایاہوگا ،کسی کو ماراپیٹا ہوگا ،لہذا کسی کواس کی فلاں نیکی دے دی جائے گی اور کسی کو فلاں نیکی دے دی جائے گی۔ اس طرح اس کی سب نیکیا ںدوسروںکے حقوق دینے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی تب ان حقداروں کے گناہ اس پرلاد دئیے جائیں گے ،اور اس طرح وہ جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔“ (مسلم)
*غیبت ایک مہلک مرض*
حجاج بن ےوسف سے کو ن واقف نہیں جس نے بےشمار ظلم کئے کتنے ہی علماءکو شہید کیاکتنے حافظوں کو قتل کیا حتی ٰ کہ اس نے کعبہ شریف پر بھی حملہ کیا جو بھی اس کے حالات پڑھتاہے اس کی طرف سے کراہت پےدا ہوتی ہے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے سامنے حجاج بن ےوسف کی برائی شروع کردی اس برائی کے اندر اس کی غیبت کی تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فوراً ٹوکا اور فرماےا کہ ےہ مت سمجھنا کہ اگر حجاج بن ےوسف ظالم ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہوگی ےاد رکھو! جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حجاج بن ےوسف سے اس کے قتل ناحق اور ظلم وخون کا بدلہ لےں گے تم اس کی غیبت کر رہے ہو تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ تم سے لےں گے۔
اے گناہ گار !اس کی ستاری سے دھوکہ میں نہ پڑکیونکہ کبھی وہ تےرے ستر کھول کر رکھ دےتا ہے اور اس کے حلم وبردباری سے دھوکہ مت کھا چونکہ کبھی سز ااچانک آپڑتی ہے۔
زبان ایک اژدہا ہے اس کی حفاظت کرے طعنہ زنی اور غیبت جےسی برائیوں نے گھروںکو جہنم بنا دیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم نے فرماےا من صمت نجا ۔جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
*غیبت ایک سنگین گناہ ہے:* حضور اقدس صلی للہ علےہ وسلم نے اس پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں ۔قرآن نے اےسے سنگین الفاظ استعمال کئے ہیں کہ شاےد اورگناہ کےلئے اتنے سنگین الفاظ نہ استعمال کئے ہوں ۔
ولاےغتب بعضکم بعضااےحب احدکم ان ےاکل لحم اخیہ میتافکرہتموہ۔(پارہ : ۶۲سورہ: حجرات آیت :۲۱) ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتاہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے تم اس کو بہت برا سمجھتے ہو۔
گناہوں پر قلق اور خدا سے التجا کا اہتمام کر کیونکہ تےر ے حق میں ےہی نافع ہوسکتاہے حزن وغم کی غذا کھا اور آنسو ¿ں کا پیالہ پی !غم کی کدال سے خواہشات کے دل کا کنواں کھو د تاکہ اس سے ایسا پانی نکلے جو تےرے جسم کی نجاست کو دھو دے ۔
حضور صلی اللہ علےہ وسلم نے فرماےا غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے کیونکہ زنا کا گناہ معافی اور ندامت سے معاف ہوجائے گا لےکن غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوگاجب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت اور بے آبرو ئی کی گئی ہے(مجمع الزوائد ج ۸ص ۱۹)
عن ابی ہرےرة ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم قال من کان ےومن با للہ والےوم الاخر فلےقل خیرًااولےصمت(بخاری کتاب الایمان)نبی کریم صلی اللہ علےہ وسلم نے ارشاد فرماےاکہ جو شخص اللہ اور ےوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اس کو چاہئے کہ ےا تو وہ اچھی بات اور نیک بات کرے ےا خاموش رہے ۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علےہ وسلم صحابہ کےساتھ کسی طرف تشریف لےجارہے تھے اتنے میںایک سخت بدبوپھےلی فرماےا ©:جانتے ہو ےہ کیسی بدبوہے؟ ےہ ان لوگوں کی بدبو ہے جومسلمانوں کی غیبت کرتے ہےں ۔(مسند ابن حنبل بسند جابر بن عبد اللہ ) (سیر ت النبی صلی اللہ علےہ وسلم ص ۸۰۲ ج ۳)
اکثر مرجع خلائق حضرات کی قابل قدر مجلسوں میں دیکھا جاتاہے کہ کچھ متوسلین اپنے احوال دیگر معتقدین کی موجودگی میں حالات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں اپنی مظلومیت کا دکھڑا بھی ہوتاہے اور غیبت کا عنصر بھی اس میں نمایاں ہوتاہے اور اسے حاضرین بھی سنتے ہیں ۔جو غیبت کے عتاب اور گنا ہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں بہتر ہو گا کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ فردا ً فرداً ہر ایک سے ان کے احوال وکوائف تنہائی میں سناجائے۔
*غیبت کی جائز صورتیں*
• ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔
• برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔
• اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔
• اعلانیہ برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔
• مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس قبیح عمل سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا کرے اورصرف قران و سنت پر عمل کرکے آخرت میں کامیاب ہونے کی توفیق دے.آمین.
ےا اےھاالذین آمنو ااجتنبو اکثیراً من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسو ولاےغتب بعضکم بعضا اےحب احدکم ان ےاکل لحم اخیہ میتاً فکرہتموہ (پارہ : ۶۲سورہ: حجرات آیت :۲۱)
” اے اےمان والو!بہت گمان کرنے سے بچو اسلئے کہ بعض ظن گناہ ہے اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت نہ کر ے کیا تم مےں کا کوئی اس بات کوپسند کرتاہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ظاہر بات ہے کہ تم اس کو نا پسند کرتے ہو گے ۔حدیث شریف میں آتاہے کہ ایک شخص غیبت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرماےا تم نے جو غیبت کی ہے اس کی وجہ سے مجھے تمہارے منھ سے کچے گوشت کھانے کی بو آرہی ہے ۔
*چغل خوری کی سزاجنت سے محرومی*
عن حذےفتہؓ قال سمعت رسول للہ صلی اللہ علےہ وسلم بقول لا ےد خل الجنة قتات (الادب المفرد )
حضرت خدےجہ ؓ سے رواےت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علےہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”چغلخور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ دوسری حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے نقل ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علےہ وسلم مدےنہ کے کسی باغ سے باہر نکلے تو مردوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب ہو رہاتھا ۔آپ صلی اللہ علےہ وسلم نے ارشاد فرماےا دونوں کی قبر وںمیں عذاب ہور ہاہے اور ےہ عذاب کسی بڑے گناہ کے کی بنا پر نہیں پھر فرماےا کیوں ہے!ان میں سے ایک پےشاب کی چھینٹوں سے پر ہیز نہیں کرتاتھا اور دوسرا لوگوں کی چغلخوریاں کرتا پھرتاتھا۔ اس حدیث پاک میں قتات کا لفظ آیا ہے ”قتات“”نمّام“ کے ہم معنیٰ ہے لیکن دونوں میں لفظی فرق ہے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ نمّام وہ ہے جو کسی واقعہ کو دیکھتاہے اور لوگوں سے کہتا پھر تا ہے ،مجمع البحار میں یہ اضافہ ہے کہ نمّام یہ حرکت فساد پھیلانے کی نیت سے کرتا ہے ۔ اور قتات ادھر ادھر کی سنی سنائی بات کو لوگوں میں پھیلاتا رہتاہے۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم ؓ اور اسماءبنت ےزید ؓ سے رواےت ہے ۔نبی پاک علےہ الصلوٰة والتسلیم نے ارشاد فرماےا اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دےکھ کر اللہ ےاد آئے اور بدترین وہ ہے جو چغلیاں کھائے ،دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں جو اس کوشش میں لگے رہتے ہےں کہ اللہ کے پاک دامن بندوں کو کسی گناہ میں ملوث کریں ےا کسی پریشانی میں مبتلا کریں (مسند احمد)