اسلامی تعلیمات میں غیبت: فساد کی جڑ اور سنگین گناہ

**”اسلامی تعلیمات میں غیبت: فساد کی جڑ اور سنگین گناہ”**

**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
(امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار)

اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کو امن، اتحاد، اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس دیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں ہر شخص عزت و احترام، وقار اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ اسلامی تعلیمات انسان کو ہر قسم کی بد اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں تاکہ انسانی معاشرہ پائیدار بنیادوں پر قائم رہ سکے۔ غیبت ایسی مذموم عادت ہے جو معاشرتی نظام کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے اور فساد کی جڑ بن جاتی ہے۔ اس برائی کے ذریعے انسانوں کی عزت کو مجروح کیا جاتا ہے، دلوں میں بدگمانی اور نفرت کا بیج بویا جاتا ہے، اور معاشرتی ہم آہنگی بکھر جاتی ہے۔ قرآن و سنت میں غیبت کو ایک سنگین اخلاقی جرم قرار دیا گیا ہے، جو نہ صرف انسانی تعلقات کو تباہ کرتا ہے بلکہ روحانی طور پر انسان کو اللہ کی ناراضی اور آخرت کی شدید سزا کا مستحق بناتا ہے۔

**غیبت کا مفہوم اور تعریف:**

اسلام میں غیبت کی حقیقت قرآن و سنت میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے دریافت کیا۔”تمھیں معلوم ہے غیبت کیا ہے؟” انہوں نے جواب دیا ،”اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بہتر جانتے ہیں۔”رسول اللہ ﷺ نے غیبت کی جامع اور سادہ تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :”کہ تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو جو اسے ناپسند ہو۔”
کسی نے پوچھا "جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اگر میرے بھائی کے اندر یہ بات موجود ہو؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر تمہارے بھائی میں موجود ہے تو تم نے غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔”(مسلم۔ابو داؤد۔ترمذی۔نسائی)

لہذا غیبت کی تعریف یہ ہوئی کہ”کسی مسلمان کا اس انداز میں تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو اور اس سے اس کی تحقیر مقصود ہو۔”

اس تعریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی کوئی ایسی بات بیان کرنا، جو اس کے لیے ناگوار ہو، غیبت کہلاتی ہے، چاہے وہ بات حقیقت پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر بیان کی گئی بات جھوٹی ہو تو یہ غیبت سے بھی بڑا گناہ بن جاتی ہے، جسے بہتان کہا جاتا ہے۔ بہتان لگانا غیبت سے زیادہ سنگین جرم ہے، کیونکہ یہ کسی کی عزت اور شخصیت کو بلاوجہ مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

**قرآنی تعلیمات میں غیبت کی مذمت:**

قرآن مجید میں غیبت کی مذمت ایک مؤثر اور دل نشین انداز میں کی گئی ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو ایک انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے،وہیں اللہ تعالٰی نےغیبت کرنے والوں کوسختی سےمتنبہ کرتے ہوۓ ایک نہایت عبرت ناک مثال دی، جس میں فرمایا:
"اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟” (سورۃ الحجرات:12)

یہ آیت ایک طاقتور تمثیل کے ذریعے غیبت کی قباحت کو بیان کرتی ہے، جس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے، ویسے ہی کسی کی غیبت کرنا بھی اس کی عزت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

مزید اس آیت کی وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز میں بیان فرمائی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو اسلم قبیلے کا ایک آدمی(ماعزبن مالک الاسلمی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اپنے بارے میں زنا کا چار مرتبہ اقرار کرتے ہوئے کہا کہ”میں نے کسی عورت سے بدکاری کی ہے”ہر مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رُخ پھیر لیا۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:”تم یہ اقرار کیوں کررہے ہو؟”اس نے عرض کی،”میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پا ک کردیں۔”چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سنگسار کا حکم دیا اور وہ سنگسار کردیا گیا۔

اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو دوسرے سے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ:
"اسے دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا۔مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مرگیا۔”

راوی کا بیان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،پھر کچھ دیر چلتے رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی لاش سے گزرے جس کی پھولنے کے بعد ٹانگ بھی اٹھی ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”فلاں فلاں کہاں ہیں؟”انہوں نے کہا”ہم حاضر ہیں!”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں (غیبت کرنے والا اور سننے والا) کو حکم دیا کہ "اس گدھے کی لاش کھاؤ۔”انہوں نے عرض کی،”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کون کھا سکتا ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”ابھی ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی عزت پر حرف زنی کررہے تھے وہ اس گدھے کی بدبودار لاش کھانے سے زیادہ بُری ہے۔”(ابن حبان)

غیبت دراصل انسانی معاشرت کے لیے ایک زہر کی مانند ہے، جو محبت، اخوت، اور اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ یہ نہ صرف اس شخص کی عزت کو متاثر کرتی ہے جس کی غیبت کی جا رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی تعلقات میں دراڑیں بھی پیدا کرتی ہے۔ غیبت کرنے والا فرد اپنی زبان سے جو زہر اگلتا ہے، اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں، اور یہ معاشرت میں باہمی نفرت اور بدگمانی کا سبب بنتی ہے۔

قرآن مجید میں اس برائی کی مذمت کے حوالے سے مزید آیات بھی موجود ہیں، جو اس کی شدت کو واضح کرتی ہیں۔
1. اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ لوگوں کو ان کا مال دینے کے لیے ان کا حق معلوم کر کے اس میں سے کچھ کو جان بوجھ کر کھاؤ۔” (سورۃ البقرہ)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ غیبت کا عمل بھی دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کا ایک طریقہ ہے، اور یہ معاشرتی انصاف کی روح کے منافی ہے۔

2. "نہ آپس میں ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟” (سورۃ النور)
یہ آیت بھی غیبت کی سختی سے ممانعت کرتی ہے اور اس کی حقیقی قباحت کو سمجھاتی ہے۔

3. ” جو لوگ آپس میں غیبت کرتے ہیں، ان کے لیے ہلاکت ہے۔” (سورۃ الذاریات)
یہ آیت غیبت کرنے والوں کے لیے اللہ کی جانب سے سخت عذاب کی خبر دیتی ہے، جو اس برائی کے سنگین نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

ان آیات کا مجموعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ غیبت کا عمل نہ صرف ایک اخلاقی جرم ہے بلکہ یہ معاشرتی تانے بانے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس برائی سے بچنے کی تاکید کی ہے تاکہ ہم ایک خوبصورت، باہمی محبت و اخوت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ غیبت کی اس مذمت کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ وہ انسانیت کو فساد سے بچانا چاہتے ہیں، تاکہ ہم اپنے اعمال کے اثرات کو سمجھیں اور ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں۔

**احادیث میں غیبت کی مذمت:**

اسلام میں غیبت انتہائی سنگین گناہ ہے، اسی لئےرسول اللہ ﷺ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک خطرناک روحانی اور اخلاقی بیماری قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
1. "جو شخص کسی مسلمان کی عزت کو اس کی غیر موجودگی میں پامال کرے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ میں ڈالے گا، اور وہی آگ اس کے جسم کو جلائے گی۔” (ترمذی)

یہ حدیث غیبت کی سنگینی کو واضح کرتی ہے کہ غیبت کرنے والا شخص نہ صرف دنیا میں دوسروں کی عزت پر حملہ کرتا ہے، بلکہ اس کا آخرت میں سخت ترین انجام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جہنم میں ڈالتے ہوئے اس کی زبان اور دل کی نجاست کو آگ کے ذریعے ختم کرے گا۔

2. ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات کے واقعے کا ذکر کیا:
"میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے (یعنی غیبت کرتے تھے) اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے۔” (سنن ابی داؤد)

اس حدیث میں بیان کردہ منظر غیبت کے انجام کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لوگ، جنہوں نے دنیا میں دوسروں کی عزت و وقار کو نقصان پہنچایا، قیامت کے دن اپنے ہی اعمال کا خمیازہ بھگتتے ہوئے نظر آئیں گے، جب وہ خود کو اپنے ناخنوں سے زخمی کرتے ہوں گے۔ یہ سخت سزا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غیبت کرنے والوں کی آخرت کتنی دردناک ہوگی۔

3. اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔” (بخاری)

یہ حدیث اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو اجاگر کرتی ہے، جس میں زبان کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زبان سے دوسروں کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، اور غیبت اس اصول کے بالکل برعکس ہے۔

ان احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیبت نہ صرف دنیاوی زندگی میں اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتی ہے بلکہ آخرت میں بھی سنگین عذاب کا باعث بنے گی۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ فعل اتنا گھناؤنا ہے کہ اس کی سزا نہایت خوفناک اور دردناک ہوگی۔

**غیبت کے عبرت ناک واقعات: اللہ کی ناراضی اور نیکیاں ضائع ہونے کا انجام**

غیبت ایک سنگین گناہ ہے، جو نہ صرف دنیاوی مسائل کا سبب بنتا ہے بلکہ انسان کی آخرت کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔ اس حوالے سے تاریخ میں کئی عبرت ناک واقعات بیان کیے گئے ہیں، جو غیبت کے تباہ کن نتائج کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں سے دو اہم واقعات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے اور بنی اسرائیل کے دو نیک افراد سے متعلق ہیں۔

* غیبت کی وجہ سے دعا کی قبولیت سے محرومی*

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص بیمار ہو گیا تھا، اور لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ اس شخص کے لیے دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا کرے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، مگر اللہ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ دوبارہ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی:

"اے موسیٰ! میں اس شخص کی دعا اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک وہ غیبت کے گناہ سے توبہ نہ کرے۔”

یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کو غیبت کے گناہ سے آگاہ کیا اور اسے نصیحت کی کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ جب اس شخص نے غیبت سے توبہ کی اور اللہ سے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی اور اسے شفا عطا کی۔ یہ واقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ غیبت نہ صرف دنیا میں ذلت کا سبب بنتی ہے بلکہ انسان اللہ کی رحمت اور دعا کی قبولیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

*غیبت کے باعث نیکیاں ضائع ہونا*

بنی اسرائیل میں دو نیک عبادت گزار افراد تھے، جو اپنی پرہیزگاری کے لیے مشہور تھے۔ ایک دن، یہ دونوں ایک گناہ گار شخص کے قریب سے گزرے اور اس کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

"یہ شخص کس قدر گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے، اور ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں جبکہ یہ اپنی برائیوں سے باز نہیں آتا۔”

یہ بات اس شخص کی غیر موجودگی میں کہی گئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے فوراً وحی نازل کی:
"تم دونوں کی یہ باتیں دیکھ کر مجھے تمہاری عبادت کی کوئی پرواہ نہیں ہے، اور تمہاری نیکیاں اس وقت تک قبول نہیں ہوں گی جب تک تم اس شخص سے معافی نہ مانگ لو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔”
یہ سن کر دونوں نیک افراد نہایت شرمندہ ہوئے اور اس شخص سے جا کر معافی مانگی، تب اللہ نے ان کی توبہ قبول کی۔

یہ دونوں واقعات ہمیں غیبت کے سنگین انجام سے آگاہ کرتے ہیں۔ غیبت انسان کی نیکیوں کو ضائع کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کی رحمت اور دعا کی قبولیت کے لیے زبان کی پاکیزگی ضروری ہے، جبکہ بنی اسرائیل کے واقعے سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان کی نیکیاں غیبت کے سبب برباد ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنی چاہیے اور دوسروں کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ اللہ کی رضا اور رحمت کے حقدار بن سکیں۔

**غیبت کے سماجی اور اخلاقی نقصانات:**

غیبت ایک سنگین اخلاقی برائی ہے جو نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرتی رشتوں اور تعلقات کو بھی زوال پذیر کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی اور اخلاقی نقصانات درج ذیل ہیں:

1. اعتماد کا فقدان: غیبت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو جاتی ہے۔ افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے شک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قریبی تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں اور آپسی محبت میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔

2. نفرت اور کینہ: غیبت دلوں میں نفرت اور کینہ کا بیج بو دیتی ہے۔ اس سے لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، اور معاشرتی امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ نفرت اور دشمنی بڑھتی ہے اور معاشرت میں ہم آہنگی کا فقدان ہو جاتا ہے۔

3. اخلاقی گراوٹ: غیبت کرنے والوں کا اخلاقی معیار مسلسل گرتا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کرنے میں مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے اپنی اصلاح کی جانب توجہ نہیں دے پاتے اور اخلاقی ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں۔

4. معاشرتی انتشار: جب غیبت معاشرے میں عام ہو جاتی ہے، تو اس کا نتیجہ فتنہ و فساد اور اختلافات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ افراد کے درمیان پیار و محبت ختم ہو جاتی ہے، اور معاشرتی روابط کمزور پڑ جاتے ہیں، جس سے معاشرہ انتشار اور بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔

غیبت کا نقصان صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول و فعل میں احتیاط برتیں اور ایسی برائیوں سے خود کو دور رکھیں جو معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

**غیبت کا کفارہ :**

اگر کسی مسلمان سے اپنے بھائی کی غیبت سرزد ہو جائے، تو اس کا کفارہ ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے کے لیے چند اہم اقدامات ضروری ہیں:

1. مرحوم کی غیبت: اگر غیبت کا شکار شخص اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے، تو غیبت کرنے والے کو اس کے حق میں کثرت سے استغفار کرنا لازم ہے۔ علماء کرام کے نزدیک اس کا واحد حل یہی ہے کہ جب اس شخص سے معافی طلب کرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے، تو اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل توبہ و استغفار کیا جائے، تاکہ اس کا حق ادا ہو جائے اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔

2. زندہ شخص کی غیبت: اگر جس شخص کی غیبت کی گئی ہے وہ زندہ ہے، تو ضروری ہے کہ غیبت کرنے والا اس سے دل کی گہرائیوں سے معافی طلب کرے اور اسے راضی کرے۔ معافی کے اس عمل سے قیامت کے دن کوئی گلہ باقی نہیں رہے گا، اور دنیا میں ہی دلوں میں موجود کدورتیں ختم ہو جائیں گی۔

جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس کسی کے ذمے اس کے بھائی کا حق ہو، وہ اسے اس دن سے پہلے معاف کروا لے جس دن نہ کوئی دینار ہو گا نہ درہم۔ وہاں صرف نیکیاں لے کر ادائیگی کی جائے گی، اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو دوسرے کی بُرائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔” (بخاری و مسلم)

اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔” (مشکاۃ المصابیح)

یہ احادیث ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ غیبت ایک سنگین گناہ ہے، جس کے اثرات دنیا اور آخرت دونوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ دنیا میں ہی اپنے گناہوں کی تلافی کر لی جائے اور اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کی جائے۔ توبہ ایک عظیم عمل ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی خطائیں معاف فرماتا ہے اور اسے گناہوں کی آلودگی سے پاک کر دیتا ہے۔

**غیبت سے بچنے کے اسلامی اصول: احادیث کی روشنی میں**

احادیث مبارکہ میں غیبت سے بچنے کے لیے بہت واضح اور مؤثر ہدایات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے غیبت کو ایک بدترین عمل قرار دیا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی۔

احادیث مبارکہ میں غیبت سے بچنے کے جو اسلامی اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. خاموشی کو اختیار کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔” (بخاری و مسلم)
اس حدیث کی روشنی میں، بلا ضرورت گفتگو سے بچنا اور زبان پر قابو رکھنا غیبت سے بچنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

2. مومن کی عزت و حرمت: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے: اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت۔” (مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا اور غیبت کرنا شدید حرام ہے، اور ہمیں اس سے بےحد اجتناب کرنا چاہیے۔

3. نیکیوں کا ضیاع: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جانتے ہو، مفلس کون ہے؟ مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا، لیکن اس نے کسی کو گالی دی، کسی پر جھوٹا الزام لگایا، کسی کا مال کھایا، اور کسی کا خون بہایا۔ تو اس کی نیکیاں ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔” (مسلم)
یہ حدیث غیبت کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہے کہ قیامت کے دن انسان کی نیکیاں دوسروں کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ضائع ہو سکتی ہیں۔

4. اخوت اور خیرخواہی: نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو باہمی محبت، اخوت اور خیرخواہی کا درس دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔” (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں خیرخواہ ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی عزت اور حقوق کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔

یہ احادیث ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہیں کہ غیبت سے بچنا نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ یہ اسلامی معاشرتی اصولوں کا بنیادی جز ہے۔

**غیبت کےجائز مواقع اور فقہی احکام**

غیبت کے جائز مواقع کو سمجھنا ایک اہم فقہی مسئلہ ہے جو نیکی، احتیاط اور معاشرتی بہتری کے پیش نظر بیان کیا گیا ہے۔ ان صورتوں میں غیبت عمومی غیبت کی طرح مذموم نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ حالات ہیں جہاں اصلاح، مشورہ یا احتیاطی تدابیر کے طور پر کسی کی خامی کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اگر کسی شخص کی خامیوں کا ذکر احتیاط اور خیرخواہی کی نیت سے کیا جائے، تاکہ دوسرے اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کریں، تو یہ غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔ غیبت کی حقیقت تب ہوتی ہے جب برا بھلا کہنے کا مقصد صرف کسی کی بے عزتی اور بدگوئی ہو۔ مزید یہ کہ کسی پوری بستی یا گروہ کے افراد کی عمومی برائی بیان کرنا غیبت شمار نہیں ہوتا، کیونکہ مقصد ہر فرد کی نہیں بلکہ کچھ نامعلوم افراد کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ *خانیہ* میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو غیر معروف یا برائی میں مشہور ہوں، ان کی غیبت جائز ہے، بالخصوص جب کسی کو نکاح، شراکت یا ہمسائیگی کے معاملے میں خبردار کرنا ہو، یا بدعقیدہ لوگوں سے بچنے کے لیے ان کی نشاندہی کرنی ہو۔ اسی طرح، جب کسی ظالم کے خلاف حاکم کے سامنے شکایت کی جائے، تو اس کے ظلم کا ذکر کرنا انصاف کے تقاضے کے تحت جائز ہے۔

*تنبیہ الغافلین* کے فقیہ ابواللیث نے غیبت کی چار اقسام کی وضاحت کی ہے:
1. کفر: اگر کوئی شخص غیبت کے برے عمل کو جائز کہے اور اسے سچائی کے لبادے میں چھپائے، تو یہ کفر کے مترادف ہے، کیونکہ وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے حرام کو حلال سمجھنے لگا ہے۔
2. نفاق: کسی کا نام لیے بغیر، ایسی بات کرنا جس سے سننے والے کو اندازہ ہو جائے کہ بات کس کی ہو رہی ہے، اور بولنے والا اس عمل کو تقویٰ سمجھتے ہوئے کرے، یہ نفاق کی ایک قسم ہے۔
3. معصیت: کوئی شخص جان بوجھ کر غیبت کرے اور اسے معصیت سمجھتے ہوئے بھی باز نہ آئے، تو اس پر توبہ واجب ہے۔
4. مباح: فاسق یا بدعتی شخص کی برائی کا ذکر کرنا، تاکہ لوگ اس سے محتاط رہیں، نہ صرف جائز بلکہ ایک نیکی کا عمل ہے، کیونکہ یہ برائی سے روکنے اور نیکی کی دعوت کے تحت آتا ہے۔

*ابن شحنة*نے "تبیین المحارم” میں بیان کیا کہ وہ برائیاں جنہیں کوئی شخص علانیہ انجام دے، ان کا ذکر کرنا جائز ہے، اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ: "جو اپنی حیا کا پردہ خود اتار دے، اس کی غیبت نہیں کی جا سکتی”۔ اسی اصول کے تحت، اگر کوئی شخص کھلے عام نماز نہ پڑھنے کا عادی ہو اور اس کا ذکر کیا جائے، تو یہ جائز ہے۔

نکاح، شراکت، سفر یا ہمسائیگی جیسے معاملات میں بھی خیرخواہی اور مشورے کے طور پر کسی شخص کے عیب کا ذکر کرنا جائز ہے، تاکہ دوسروں کو نقصان یا برائی سے بچایا جا سکے۔ اسی طرح، بدعقیدہ لوگوں کے متعلق خبردار کرنا ایک شرعی ذمہ داری ہے تاکہ فتنے سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ ظلم کے خلاف شکایت کے دوران ظالم کا ذکر حاکم کے سامنے کرنا بھی عین انصاف کے تقاضے کے مطابق ہے۔

مزید برآں، چھ ایسے مواقع بھی ہیں جہاں غیبت جائز ہے:
1. کسی کی برائی سے روکنے کے لیے مدد طلب کرنا۔
2. کسی اہم مسئلے کے حل کے لیے احتیاطی طور پر کسی کا ذکر کرنا۔
3. مفتی کے سامنے مسئلہ پیش کرتے وقت کسی شخص کا ذکر کرنا، جیسا کہ حضرت ہندہ (رضی اللہ عنہا) نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنے شوہر کی شکایت کی۔
4. کسی سامان یا غلام کے عیب کو ظاہر کرنا تاکہ خریدار نقصان سے بچ سکے۔
5. کسی شخص کا عرفی نام بیان کرنا، جب وہ اسی نام سے جانا جاتا ہو۔
6. گواہوں یا راویوں کی جرح کرنا، تاکہ دین کی حفاظت اور انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين «رد المحتار»)

یہ تمام صورتیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ نیت میں خلوص اور مقصد نیکی ہو۔ ان مقامات پر غیبت کی اجازت صرف اس لیے دی گئی ہے تاکہ برائی سے روکا جا سکے، لوگوں کی بھلائی کی جا سکے اور انصاف کا بول بالا ہو۔ شریعت نے غیبت کی ان جائز صورتوں کو نیکی کی نیت سے مشروط کیا ہے، تاکہ معاشرہ فتنوں اور ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکے۔

**غیبت سے بچنے کی اہمیت**

آج کے دور میں غیبت کی نوعیت اور اثرات پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ غیبت ایک ایسی سنگین برائی ہے جسے اسلام میں انتہائی سخت الفاظ میں منع کیا گیا ہے۔ یہ فعل انسان کے دینی مرتبے کو گرا دیتا ہے اور روحانی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ دنیاوی اعتبار سے بھی غیبت کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں، کیونکہ یہ افراد کے درمیان نفرت، دشمنی اور بے اعتمادی پیدا کرتی ہے، جس سے معاشرتی تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں اور برادری میں بے سکونی پھیلتی ہے۔

اسلام ہمیں خیر خواہی، محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے، اور ہمیں ہر حال میں اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ ہم دوسروں کی عزت و حرمت کا احترام کر سکیں۔ غیبت کے اثرات اس قدر مہلک ہیں کہ یہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے، بلکہ اس کے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک چھوٹی سی بات بھی تعلقات میں دراڑ ڈال سکتی ہے، جو کہ انسان کی سماجی زندگی کو برباد کر سکتی ہے۔

لہٰذا، ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم غیبت جیسے تباہ کن گناہ سے بچیں، کیونکہ یہ نہ صرف ہماری آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے، بلکہ دنیا میں بھی ہمارے تعلقات اور معاشرتی ڈھانچے کو برباد کر دیتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس برائی سے بچنے کی کوشش کریں اور معاشرتی بہتری کے لیے کام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس برائی سے محفوظ رکھے، ہماری زبانوں کو کنٹرول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایک پرامن، محبت بھرا اور باہمی احترام پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے