*ظلم ونا انصافی کے خلاف جدو جہد انبیاء کی سنت اور مظلوم کی حمایت ہر مسلمان کا اخلاقی فریضہ*
*سماج کو ہمیشہ زندہ قوموں اور حوصلہ مند افراد کی ضرورت رہی ہے*
*جامع مسجد ہرنتھ اور مسجد یوسف علی بھٹہ،اسلام نگر،برہ پورہ میں ممتاز عالم دین مولانا سرفراز احمد قاسمی کا خطاب*
بھاگلپور(پریس نوٹ)”انسانی سماج کو ہمیشہ زندہ قوموں اور حوصلہ مند افراد کی ضرورت رہی ہے، زندہ قومیں اپنی قربانیوں اور جدوجہد کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتی ہے،وہ اپنی تاریخ خود لکھتی ہے اور اپنا راستہ خود بناتی ہے،وہ کسی بیساکھی کے ذریعے زندگی نہیں گذارتی،انکے پاس ایک مکمل لائحہ عمل ہوتاہے جسکی روشنی میں وہ اپنا سفر طے کرتی ہے، بحیثیت مسلمان اگرآپ زندہ قوم ہیں تو پھر آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ واقعی آپ زندہ ہیں،آپ کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے،زندہ قومیں تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے،وہ اپنے وجود کی لڑائی خود لڑتی ہے وہ کسی کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ کوئی اسکا مذاق بنائے،زندہ قومیں اور زندہ دل لوگ ہمیشہ ظلم کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں،مردہ اور سوئی ہوئی قوموں کے ساتھ کوئی کھڑا ہونا تک پسند نہیں کرتا اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت انکی کسی طرح کی کوئی مدد کرتی ہے،معاشرے میں بزدل اور مردہ لوگوں کی کوئی ضرورت نہ کل تھی نہ آج ہے اور نہ کل رہے گی،بزدل اور مردہ قوم کو پس پست ڈال دیاجاتاہے، انھیں بھلادیاجاتاہے،سماج اور معاشرے میں انکی کوئی قدر نہیں ہوتی،ظلم خواہ کہیں پر بھی ہو ہم سبکو ایک ہوکر اور متحدہ طور پر اسکا مقابلہ کرناچاہئے،باطل کا پنجہ مروڑنے اور حق کی حمایت کےلئے ہمیشہ مسلمانوں کو میدان میں ڈٹے رہنا اور ہمیشہ آگے رہناچاہئے یہی اسلام سکھاتاہے اور یہی ہمارے مذہب کی تعلیم ہے”مذکورہ خیالات کا اظہار شہر حیدرآباد سے تشریف لائے معروف صحافی اور ممتاز عالم دین مولانا سرفراز احمد قاسمی نے جامع مسجد ہرنتھ میں مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو زندہ قوم بنایاہے،اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ہمیشہ سے ایک زندہ قوم رہی ہے اور ہر موقع پر اپنی زندہ دلی کے ذریعہ فرائض منصبی کو بحسن خوبی انجام دیتی رہی ہے،جسکا نتجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے دشمن ان سے مقابلہ تو دور آنکھ سے آنکھ ملانے کی بھی ہمت نہیں کرتے تھے،ادھر کچھ عرصے سے مسلمانوں نے اپنے فرائض منصبی کو بالائے طاق رکھ دیا،شریعت کو چھوڑکر اپنی من مانی زندگی گذارنے لگے تو آج ہم ہرجگہ مشکلات ومصائب کا شکار ہیں،ہمیں اپنی کمیوں،کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرکے اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اسکے بغیر ہمیں دنیا کے کسی بھی حصے میں کامیابی و کامرانی نہیں مل سکتی، مولانا قاسمی جو نوجوان،متحرک اور فعال عالم دین ہیں نے مزید کہاکہ آج دنیا بھر میں ہرجگہ مسلمان مشکلات و مصائب کا شکار ہیں،ہندوستان سے لیکر فلسطین تک مسلمان دنیا کے کونے کونے میں اپنے حقوق اور اپنے وجود کی لڑائی لڑرہاہے،ہم مسلمان تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گذر رہے ہیں،اسلئے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی،اپنے اخلاق وکردار کو درست کرنا ہوگا،ہمیں اپنا رویہ اور زندگی گذارنے کا انداز بدلنا ہوگا،وقت اور حالات کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا،تاکہ ہم کامیاب وکامران ہوسکیں،
ظلم کے خلاف جدو جہد انبیاء کی سنت اور مظلوم کی حمایت ہر مسلمان کا اخلاقی فریضہ ہے، یہ فکر ہمیں اپنے اندر پیداکرنی ہوگی،مسلمان ہر حال میں عدل وانصاف کا پابند ہے،اسی لئے حسب استطاعت مظلوم کی حمایت کرنے کا حکم ہے،ظلم وزیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے،ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کو اسکے حق کے حصول تک جدو جہد کرنے کا پابند ہے،مسجد یوسف علی بھٹہ اسلام نگر برہ پورہ میں مولانا نے اپنے فکرانگیز خطاب میں کہا کہ آج جو حالات ہمارے ساتھ پیش آرہے ہیں یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے بلکہ اسکی پیشن گوئی چودہ سو سال قبل کردی گئی ہے لیکن اسکے باوجود ہم خواب غفلت میں ہیں، ایک حدیث کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ”عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ دنیا بھر کی دیگر قومیں تم پر حملہ کےلئے اورتمہیں ختم کرنے کےلئے ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے دسترخوان پر بیٹھے لوگ پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،کسی نے سوال کیاکہ یا رسول اللہ!کیا ہماری تعداد اسوقت کم ہوگی؟کیا ہم تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑے ہونگے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا نہیں! بلکہ اسوقت تمہاری تعداد بہت ہوگی،لیکن تمہاری حیثیت نالے میں بہنے والے پانی کے جھاگ کی طرح ہوگی،اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکال دےگا اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا کردےگا،صحابہ نے پوچھا کہ وہن کیا چیز ہے؟یہ کس چیز کو کہتے ہیں؟آپ نے فرمایا وہن دو چیزوں کا نام ہے،ایک دنیا کی محبت اور دوسرے موت کا خوف”آج نظردوڑائیے تو یہ بیماری ہم مسلمانوں میں نمایاں طورپر نظر آئے گی،ہر آدمی دنیا کمانے کی فکر میں پاگل ہے،لوگ پیسوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں،
اللہ تعالی ہم سبکی حفاظت فرمائے،مولانا قاسمی جو ملک کے ایک اچھے قلم کار اور کالم نگار بھی ہیں نے اپنا ولولہ انگیز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں اللہ کے حضور توبہ استغفار کرنا چاہئے اور ہم سبکو اپنے حالات کو بدلنے کی فکر پیدا کرنی ہوگی،جب تک ہم خود اپنے حالات کو بدلنے کی فکر نہیں کرتے اسوقت تک نہ ہمارے انفرادی حالات درست ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اجتماعی، ایک صحابی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسواللہ مجھے آپ سے محبت ہے آپ نے ارشاد فرمایا سو چ لو تم کیا کہہ رہے ہو،انھوں نے پھر یہی الفاظ دہرایا کہ مجھے آپ سے محبت ہے،آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ سوچ لو کیا کہہ رہے ہو،انھوں نے پھر تیسری بار یہی عرض کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر مصبتیں جھیلنے،فقرو فاقہ کی زندگی بسر کرنے اور آفتوں کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہوجاؤ”
ترمذی شریف کی ایک روایت کے حوالے سے ا نکا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ پانچ کام کرلیں جو اس حدیث میں بتایاگیاہے تو بہت حد تک ہمارے سماجی حالات درست ہوجائیں گے اور ہم ایک مثالی سماج اور معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں،ایک ایسا سماج جو اسلام چاہتاہے،ایک ایسے معاشرے کی تشکیل جسکا مطالبہ اسلام ہم مسلمانوں سےکرتاہے،حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ایساہے جو مجھ سے ان کلمات کو سیکھے اور اس پر عمل کرے،یا کسی ایسے آدمی کو سکھلائے جو اس پر عمل کرے،حضرت ابوہریرہ نے کہا یا رسول اللہ میں ان کلمات کو سیکھنا چاہتاہوں،تو رسول اکرم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ چیزیں شمارکرائیں،آپ نے فرمایا حرام چیزوں سے بچو تو اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار ہوجاؤگے اور اللہ کی تقسیم پر راضی رہو تو اسکا فائدہ یہ ہوگاکہ تم لوگوں میں سب سے زیادہ بے نیاز ہوجاؤ گے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو تو اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ تم پکے سچے مومن ہوجاؤ گے اور اپنے لئے جو چیز پسند کرتے ہو دوسرے کےلئے بھی وہی پسند کرو تو اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ پکے سچے مسلمان ہوجاؤ گے اور زیادہ ہنسنے سے بچو اسکا نقصان یہ ہے کہ زیادہ ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتاہے،مولانا قاسمی نے لوگوں سے یہ عہد لیا کہ آج سے ہم ایک پاکیزہ معاشرہ بنانے میں اپنا کردار اداکریں گے اور غفلت و بزدلی کو روندکر ہمیں ایک زندہ قوم کی صف میں شامل ہونا ہوگا۔