کامیابی کا معیار
(مشعل راہ ۔ 04)
کیا واقعی کامیابی کا مطلب صرف دولت اور شہرت ہے؟ انسان کی زندگی کا ایک بنیادی مقصد کامیابی کا حصول ہے، جو کہ دنیا اور آخرت دونوں میں محسوس ہوتی ہے۔ ہر انسان اپنے وجود کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ جاننے کی خواہش رکھتا ہے کہ اصل کامیابی کیا ہے۔ دنیاوی زندگی میں انسان تعلیم، ملازمت، دولت، اور شہرت کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن کیا یہ سب حقیقی کامیابی کے مترادف ہیں؟ قرآن پاک میں اللّٰہ فرماتے ہیں: "وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ” (الحديد: 20)۔ یہ آیت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ دنیاوی زندگی کی ہر چیز محض فریب ہے، اور حقیقی کامیابی کا مفہوم کچھ اور ہے۔
دنیاوی کامیابیاں اگرچہ ایک ضروری حقیقت ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اصل کامیابی وہ ہے جو آخرت میں نصیب ہو۔ موت کے بعد انسان کے اعمال کا حساب ہونا ہے، اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے: "كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ” (آل عمران: 185)۔ اس کے بعد آخرت کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، جہاں ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔
آج کا انسان جدید ترقی اور مادی سہولتوں کے جال میں پھنس کر آخرت کو بھولتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور میٹریلزم (Materialism) نے نوجوانوں کی سوچ کو متاثر کیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی ترقی ہی اس کی کامیابی کا پیمانہ ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ کوئی بھی مادی ترقی انسان کو اس کے آخری مقصد، یعنی آخرت کی کامیابی، نہیں دلا سکتی۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا” (القصص: 77)۔ اس آیت میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہمیں عطا کیا گیا ہے، اسے آخرت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ کامیابی کی اصل تعریف وہ ہے جو اخلاقی اور روحانی اقدار کے مطابق ہو۔
اگر انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو کو آخرت کے تناظر میں دیکھے اور اپنے ہر عمل کو اللّٰہ کی رضا کے مطابق بنائے، تو وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایک ایماندار تاجر، دیانتدار ملازم، اور صحیح مقصد کے تحت علم حاصل کرنے والا طالب علم، یہ سب کامیابیاں ہیں جو دنیا اور آخرت میں انسان کو سرخرو کر سکتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: "الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ” (دنیا آخرت کی کھیتی ہے)۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ اس دنیا میں بوئیں گے، وہی ہمیں آخرت میں کاٹنا ہوگا۔
ہمیں اپنی دنیاوی جدوجہد کو ایک عارضی قیام گاہ سمجھتے ہوئے آخرت کی کامیابی کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ حقیقی کامیابی وہ ہے جو ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی کامیابی کی ضمانت دے۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا اصل فلسفہ ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو اس شعور کے ساتھ گزاریں کہ ہمیں آخرت میں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے، تو ہماری دنیاوی کامیابیاں بھی ہمیں آخرت میں فائدہ پہنچائیں گی۔ معلوم ہوا، کامیابی کا معیار وہ ہے جو ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی کامیابی کی ضمانت دے۔ دنیاوی زندگی کی جدوجہد ضروری ہے، لیکن اس کا مقصد آخرت کی کامیابی ہونی چاہیے، اور یہی حقیقی کامیابی کا معیار ہے۔
✍️:- عامر کلامؔ
مدرسہ نور الہدیٰ
مچھیلا کیلاباڑی، ارریہ، بہار
21 اکتوبر 2024
ای میل: aamirkalam374@gmail.com