فرقہ ورایت سے آزادی*

*فرقہ ورایت سے آزادی*

(مشعل راہ ۔ 24)

اسلام کی بنیادی تعلیمات میں اخوت، امن، اور محبت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں میں فرقہ واریت اور تعصب نے جڑ پکڑ لی، جس سے دین کی اصل روح کو نقصان پہنچا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دینی طالب علم، چاہے وہ دین کے گہرے علم کا حامل ہو یا کسی معروف ادارہ سے فارغ التحصیل ہو، عام طور پر کسی مخصوص فرقے سے منسوب ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ہمیں ایک اہم سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ کیا ایک مسلمان، خصوصاً ایک دینی طالب علم، فرقہ واریت اور تعصبات سے آزاد رہ سکتا ہے؟ کیا وہ تمام تفریق سے نکل کر اسلام کے حقیقی پیغام کا علمبردار بن سکتا ہے؟

فرقہ واریت کی جڑ شخصیت پرستی (کسی شخصیت کی اندھی تقلید) ہے۔ جب مسلمان اپنی محبت اور عقیدت کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی ذات پر مرکوز کرنے کے بجائے مختلف شخصیات اور جماعتوں کے پیچھے چلتے ہیں، تو یہ ان کو تقسیم کر دیتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی زندگی کو بہترین نمونہ قرار دیتا ہے: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”(الاحزاب: 21)۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی پیروی کو اپنی زندگی کا محور بنا لیں تو فرقہ واریت کی دیواریں خود بخود گرنے لگتی ہیں۔

ایک مسلمان جب اپنی محبت اور عقیدت کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر مرکوز کرتا ہے، تو وہ فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا: "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ” (بخاری، مسلم) "تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔”

یہی وہ اخوت اور محبت کا مقام ہے جہاں فرقہ بندی کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں اور ہم دین کی اصل روح سے جڑ جاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے سچی عقیدت کے ذریعے ہمیں ایسا دینی اعتماد اور روحانی سکون نصیب ہوتا ہے جو کسی فرقے کی محدود سوچ سے ممکن نہیں۔

فرقہ واریت سے اوپر اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت کی روشنی میں گزاریں اور ان کی سنت کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔ اس طرح ہم فرقہ واریت کی محدود سوچ سے آزاد ہو کر حقیقی دین کی جانب بڑھتے ہیں۔ یہ روشنی ہمارے دلوں کو اخوت، محبت، اور امن سے منور کر دیتی ہے۔

تحریر: عامر کلامؔ
(استاذ: مدرسہ نور الہدیٰ مچھیلا، کیلاباڑی، ارریہ، بہار)
12 نومبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے