✍️: سمیع اللہ خان
ایران میں ان کی شہادت ایرانی سیکورٹی ایجنسیوں کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے، اسماعیل ہانیہ ایران کی دعوت پر صدارتی تقریب میں شرکت کے لیے تہران گئے ہوئے تھے اور وہاں انہیں قتل کردیا جاتا ہے ایران اتنے بڑے اسلامی لیڈر کو اپنے یہاں بلواتا ہے لیکن ان کی حفاظت نہیں کر پاتا یہ کیا مذاق ہے؟ نہیں بلکہ جو نیا ایرانی صدر ہے وہ برطانیہ نواز ہے، پہلے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ کو قتل کروایا گیا جو اسماعیل ہانیہ کے دوست تھے ان کو راستے سے ہٹا کر پھر ایک ایسا صدر ایران میں منتخب کروایا گیا جو یوروپ کا دوست ہے پھر اس کی تقریب میں شرکت کے لیے اسماعیل ہانیہ کو بلایا گیا اور شہید کردیا گیا ، کیا نئے ایرانی صدر نے امریکہ و اسرائیل کو پہلا تحفہ دےدیا ہے؟ کیا ایران کے نئے صدر نے یزید کی تاریخ کو امت کے حسینیوں کے ساتھ دوہرا دیا ہے؟ جب سے ایران میں نیا صدر آیا ہے اسے ایران کے خمینی گروپ کی ہار سمجھا جارہا تھا خمینی گروپ کا امیدوار ہار گیا تھا اور مغرب نواز لبرل اصلاح پسند جیت گیا تھا تبھی لوگوں کو لگ رہا تھا کہ ایران کے اندرونی سسٹم میں مغربی طاقتوں نے قبضہ کرلیا ہے اور مذہبی خمینی گروپ کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے، ابراہیم رئیسی کا قتل اس بات کا سب سے بڑا ثبوت تھا، لیکن مغرب نواز نومنتخب صدر تو یزیدیوں کا امام نکلا جس کی پہلی ہی تقریب میں لشکر حسین کے سربراہ کا سر اتار دیا گیا ۔ یہ حادثہ یقیناً غم و الم کا سبب ہے ، ناقابلِ بیان قلبی اذیت کی وجہ ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ فلسطینی آزادی کے لیے جاری تحریک کسی حال میں ٹھہرے گی نہیں، اس کے قائدین اپنا پورا پورا گھرانہ شہید کروا رہے ہیں ظاہر ہے ایسی قربانیوں کی کوکھ سے حریت اور خودمختاری ہی جنم لیتی ہے، ایسی تحریکیں قربانیوں کے ذریعے مزید طاقتور ہوتی ہیں نہ کہ کمزور! یہ ایمان کے متوالوں کی ایمانی تحریک ہے کسی جمہوریت کی سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں, یہ غازی اللہ کے پراسرار بندے ہیں، اسماعیل ہانیہ جنت میں ہیں اپنے شہید بچوں کے ساتھ خوش ہیں_