کھلوناسمجھ کر برباد نہ کرنا!
خالدانورپورنوی المظاہری
15؍اگست1947 ء کو یہ ملک آزادہوا،دوسوسال کی طویل جدوجہد ، جان، مال، اولاد و املاک اور عزت وآبروکی قربانی کے بعد،آزادفضامیں ہم نے سانس لی،تقسیم کے درد کے باوجودسب نے اس حقیقت کو قبول کیاکہ ہندوستان اب غلام نہیں رہا:مگرمسلمانوں کے دامن پرایک داغ لگااورتقسیم کیلئے وہ ذمہ دار ٹھہرا دئے گئے۔ملک کیلئے اتنی بڑی قربانی پیش کرنے کے باوجودمسلمانوں کو کیاملا؟
پاکستان بنوالینے کاالزام،اوروہ بلاوجہ اپنے ناکئے کی سزا75سالوں سے کاٹ رہے ہیں،جیلوں کوان سے آبادکیاجاتاہے،طرح طرح کے بے بنیاد الزما ت کے ذریعہ احساس کمتری میں مبتلاکرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ناانصافیوں کایہ لامتناہی سلسلہ یہاں تک ہے کہ وہ زندگی کے ہرمیدان میں سب سے پیچھے ہے،جسٹس سچرکمیٹی کی رپورٹ اس تلخ حقیقت کو اجا گر کرنے کیلئے کافی ہے۔جب کہ ایک ہزار سال ہم نے اس ملک میں حکومت کی،یہاں کے باشندوں کو تہذیب وثقافت سے آشناکیا،عدل وانصاف اورحکومت کرنے کاطریقہ سکھایا،تاج محل،قطب مینار،لال قلعہ اور گول گنبدکی شکل میں فن تعمیرکااعلیٰ نمونہ دیا،ثقافت وسیاست،صنعت وحرفت ،تجارت وزراعت میں پوری دنیا میں ہندوستان کا سربلندکیا،اورجب اسے سونے کی چڑیابنادیاتوانگریزتجارت کے بہانے اس ملک میں داخل ہوا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کے سیاہ وسفیدکامالک بن گیا۔ آزادی کی جد وجہد میں بھی مسلمان ،بالخصوص علماء کرام ہی سب سے ا ٓگے ، اورسب سے زیادہ پرجوش تھے، اس لئے انگریز نے انہیں ہی سب سے زیادہ مشق ستم بنایا،علماء کرام نے تمام مظالم کاسینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا،
انگریز سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا،اس کے نتیجہ میں آزادی کاپروانہ حاصل کرلیا؛لیکن اس کے صلہ میں ملاکیا: ’’تمہارے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں!!جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹیپھربھی کہتے ہیں ہم سے اے اہل چمن٭یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیںm m mاٹھارویں صدی کی شام ہندوستانی عظمت اور مغلیہ سلطنت کاآفتاب غروب ہورہاتھا،اورانگریزی اقتدا ر کی صبح صادق نمودارہورہی تھی،مسلمانوں کی تمام طاقتیں ختم ہوچکی تھیں،اورجوبچی کھچی تھیں، مفلوج ہوکر انگریزی اقتدارکے سامنے سرجھکا چکی تھیں،1800ء کے اخیرمیں انگریزی فوجیں دہلی کی طرف بڑھنے لگیں،مغلیہ اقتدار کی محافظ مرہٹہ فوجیں انگریزوں کی طاقت کے سامنے ٹھہرنہ سکیں،مجبوراًشکست خوردہ دہلی نے انگریزوں کااستقبال کیا ، دہلی پرقبضہ کرلیا،اورایک سوچی سمجھی اورطے شدہ پالیسی کے تحت بادشاہ کومعزول کرنے اورتخت وتاج چھیننے کے بجائے اسے برقراررہنے دیاگیا،
چونکہ تجارتی مقاصدکاتقاضہ بھی یہی تھاکہ ملک گیری کیلئے وہ راستے نہ اختیارکئے جائیں جس سے عوام میں بددلی پیداہوجائے،یہی نہیں بلکہ تہذیب اور کلچرکے لحاظ سے بھی ہندوستانیوں سے حفاظت کا وعدہ کیاگیا،ہندؤں کے سماجی معاملات پنڈتوں کے اور مسلمانوں کے معاشرتی معاملات قاضی کے سپردکرکے ان کو تہذیبی خودمختاری بھی دے دی گئی،اس پالیسی کے تحت بادشاہ کو تخت وتاج پرباقی رکھتے ہوئے اقتدارایسٹ انڈیاکمپنی کیلئے تسلیم کرالیا،اوریہ معاہدہ لکھوالیاگیا:’’خلق خدا کی ، ملک بادشاہ سلامت کااورحکم کمپنی بہادرکا‘‘بظاہر مذہب بھی محفوظ،تہذیب بھی محفوظ،بادشاہ کی بادشاہت اور آل تیمور کی عظمت بھی محفوظ،موجودہ حالات کو آزادی کہاجائے ،یاغلامی۔ایک بہت ہی پیچیدہ سوال تھا کہ ہندوستان کودارالاسلام ماناجائے،یادارالحرب کہاجائے،جہاں برسر اقتدار حکومت سے جنگ کرنامذہباًفرض ہے،یادارالامن کہاجائے کہ حکومت توغیرمسلم کی مگرمسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے،اوراس کی جان ومال بھی محفوظ ہے،اس بناء پر حکومت سے جنگ کرنادرست نہیں؟
انگریزجیسی شا طر اور ڈپلومیٹک قوم نے جوپالیسی اپنائی ،علماء کرام اورسیاسی مفکرین کے پیچ اختلاف رائے ہوناناممکن بھی نہیں تھا،اورہوابھی ایساہی۔مگرحضرت مولاناشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی سیاسی درسگاہ کے تربیت یافتہ ایک بوریہ نشیں،پختہ کارایسے شعبدوں سے مسحورہونے والے نہیں تھے،شاہ عبدالعزیزؒ اپنی فراست سے انگریز کی اس شاطرانہ چال کو سمجھ لیا، اور انگریزی حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کردیا۔ وہ لکھتے ہیں:اس شہر میں امام المسلمین کاحکم بالکل جاری نہیں ہے۔یہاں رؤساء نصاری(عیسائی افسران) کا حکم بلادغدغہ اوربے دھڑک جاری ہے۔اوران کاحکم جاری اورنافذہونے کامطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظامات رعیت،خراج،باج،عشرومالگزاری،اموال تجارت،ڈاکوؤں اورچوروں کے انتظامات،مقدمات کا تصفیہ،جرائم کی سزاؤں وغیرہ(یعنی سِول،فوج،پولیس دیوانی وفوجداری ، معاملات، کسٹم اورڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اورمختارمطلق ہیں۔ہندوستانیوں کوان کے بارے میں کوئی دخل نہیںہے۔
بیشک نماز جمعہ،عیدین،اذان اورذبیحہ گاؤجیسے اسلام کے چنداحکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے۔لیکن جوچیزان سب کی جڑاورحریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیراوررائے کی آزادی اورشہری آزادی)وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے،چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمارکردیتے ہیں،اورعوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے۔انتہایہ کہ کوئی مسلمان یاہندوان کے پاسپورٹ اور پرمٹ کے بغیراس شہریااس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا۔ عام مسافروں یاتاجروں کوشہرمیں آنے جانے کی اجازت دینابھی ملکی مفادیاعوام کی شہری آزادی کی بناء پر نہیں ،بلکہ خوداپنے نفع کی خاطرہے۔اس کے بالمقابل خاص خاص ممتازاورنمایاں حضرات مثلاًشجاع الملک اورولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیراس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔دہلی سے کلکتہ تک انہیں کی عملداری ہے۔بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاحیدرآباد،لکھنؤ اوررام پورمیں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کرلی ہے،براہ راست نصاری کے احکام جاری نہیں ہوتے،مگر اس سے پورے ملک کے دارالحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شاہ صاحبؒ نے اپنے اس فتویٰ میں ظلم وستم کی جوشکایت کی ہے،اس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندؤں کابھی ذکرکیاہے،
اوراس حقیقت کوواضح کیاکہ ہندوستانی لوگوں کوانگریزوں کی جانب سے دی جانے والی سہولیت کے باوجودہندوستان دارالحرب ہے،اس لئے ہرمحب وطن کافرض ہے کہ اس اجنبی طاقت سے اعلان جنگ کرے، جب تک اس کو ملک بدرنہ کردے اس میں زندہ رہنااپنے لئے حرام سمجھے۔شاہ صاحبؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی دلیل بھی نقل کی کہ دارالاسلام سے مرادوہ ملک ہے جس میں امام المسلمین کاحکم جاری ہوتاہو،اورجواس کے ماتحت ہو،اوردارالحرب سے مرادوہ آبادی ہے جس پر اس شہرکے غیرمسلم حکمراں کاحکم جاری ہو،اوراس کے غلبہ وتسلط میں ہو۔یہ فتویٰ دشمنوں کے نخل تمناپربجلی بن کرگری،جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے،سینوں میں ولولے مچلنے لگے،
حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں،یہی نہیں مسلمانوں اورمرہٹوں کے بیچ جوپرانی جنگ چل رہی تھی وہ بھی اس دورمیں ختم ہوگئی،مرہٹی علاقوں کے مسلمان مرہٹوں کی فوج میں شامل ہوکرانگریزوں کے خلاف برسرپیکارہوگئے،اورعلماء کرام نے انگریزکے خلاف متحدہ محاذ قائم کرلیا۔1818تک ہندوستان کی تما طاقتیں انگریزوں کے سامنے سر جھکاچکی تھیں،یہ وہ دورتھاکہ انگریزی حکومت کا جھنڈہ درہ خیبر سے راس کماری تک ،ممبئی سے لے کر آسام اور برماکے ساحل تک لہرانے لگاتھا، انگریزی حکومت کے ساتھ مقابلہ اور آنکھ سے آنکھ ملانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی ،صرف ایک شخصیت تھی جو انگریزوں کے سامنے سر جھکانے کیلئے تیار نہ تھی ،وہ شخصیت تھی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒکی جنہوں نے اپنے بڑھاپے،بیماری،نقاہت وکمزوری کے باوجود نہ صرف یہ کہ فتویٰ جاری کیا،بل کہ اپنے شاگردوں ،مریدوں اور علماء کرام کی ایک جماعت کو انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کے لئے تیار کیا ،ان کی تربیت کی ، اور میدان جنگ میں اتارا،
حضرت سید احمدشہید ؒاوران کے رفقاء کار میدان جنگ میں اترے،اور پورے ملک میں انگر یز و ں کے خلاف محاذآرائی کرکے اس غلامی کی فضا کو آزادی کے موافق بنادیا،اور ہمیں کہنے دیجئے کہ اس کے بعد ملک کی آزادی کے لئے جتنی بھی جنگیںلڑی گئیں ،اور ملک آزاد بھی ہوا،وہ اسی افتویٰ کا اثر تھا۔پتہ پتہ،بوٹہ،بوٹہ حال ہمارا جانے ہےجانونہ جانو تم ہی نہ جانو باغ تو سارا جانے ہےہمارا ایک ہی مقصد تھاکہ انگریزوں کو بھگاکر ظلم اورفتنہ سے اس ملک کو پاک وصاف کریں،تاکہ ہندومسلم اورسبھی لوگ عزت وخودداری کی زندگی بسرکریں۔اسی لئے 1857ء کی جنگ آزادی میں ہمارے علماء کرام نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا،مگرافسوس کہ کامیابی نہیں مل سکی ، اس لئے پرجوش علماء پیداکرنے کیلئے مدارس ومکاتب کے قیام کا پروگرام بنایا،اور1866ء میں دارالعلوم دیوبند قائم فرمایا،اوراس کے بعد ہزاروںمدرسے قائم ہوئے،جس سے پیداعلماء کرام نے اپنی تحریروتقریرکے ذریعہ ملک کے فضاکوگرمادیا،
اورہرطرف آزادی کی لہر دوڑنے لگی۔اٹھارویں صدی کے طلوع آفتاب سے لیکر ۱۵؍اگست ء تک تحریک مجاہدین،دارالعلوم دیوبند،ریشمی رومال تحریک،ثمرۃ التر ،جمعیۃ الانصار،خلافت کمیٹی،صیداللہ،جمعیۃ علماء ہندجیسی تنظیمیں قائم کرکے ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہم نے حصہ لیا۔بالآخر یہ ملک آزادہوگیا۔ہماری تحریک بے لوث تھی،ہماری قربانی کسی صلہ کیلئے نہیں تھی،اس لئے ملک کی آزادی کے بعد تولوگ عہدوں کے بٹوارے میں لگ گئے،اورہم نے یہ کہہ کراپنادامن سمیٹ لیاکہ ہمارامقصد توصرف انگریزوںکو اس ملک سے مار بھگانا اوربس! اس کے بدلے ہمیں اعزازیہ ملاکہ ہمیں ذلیل ورسواکیاگیا،ہمیں چن چن کر قتل کیاگیا،ہیندی،ہندو ہندوستان، ملابھاگوپاکستان کانعرہ دیاگیا۔مدارس ومساجد کو نشانہ بنایاگیا،حقوق کوچھوڑئیے ہمارے وجود پرسوالیہ نشان لگایاگیا۔ظالم وجابر طاقتوں سے ہم وہی کہناچاہتے ہیں جوحضرت شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنیؒ نے انگریزی فوج اوراس کی فولادی طاقت کومخاطب کرتے ہوئے کہاتھا:لئے پھرتی ہے بلبل اپنی چونچ میں گُل٭ شہید ناز کی تربت کہاں ہےکھلونا سمجھ کر نہ برباد کرنا٭ہم بھی کسی کے بنائے ہوئے ہیں
khalidanwarpurnawi@gmail.com-9934556027