محمد سالم ظفر
(مقام دولت پور ڈوبا جوکی ہاٹ ارریہ )
۱۸۵۷ء ملک کی جدو جہد آزادی کی یہ پہلی تحریک تھی جس کی ابتدا میرٹھ سے ہوئی اور بلا شبہ جس کے قائدین میں جنرل بخت جیسے عالی ہمت افراد کے علاوہ علماء دین بھی تھے جن کا تعلق شمال کے اسی خطے سے تھا، اور گو کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم ہندوستانیوں نے بھی ساتھ دیا اور نا کامی کی صورت میں ان کا قتل عام ہوا مگر حقیقت میں انگریز حکمرانوں نے یہ باور کر لیا تھا کہ یہ اسلامی جہاد ہے،اورمسلمان ہی اس کے بانی، قائد اور رہنما ہیں ، اسلئے اس قتل عام اور انتقامی جنون کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہی ہوئے ، دہلی اور اطراف ، خاص طور پر ضلع میرٹھ ،مظفر نگر اور سہار پنپور کے مسلمان اور علماء دین ۔ اس تحریک بغاوت کو تقویت دینے اور عملی طور پر اس میں حصہ لینے والوں میں علماء کی ایک جماعت نمایاں تھی جس کے سر براہ اور امیر حاجی امداد اللہ تھانوی ( مہاجر مکی ) تھے اور ان کے دست راست حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ، حضرت شیخ محمد تھانوی ، حضرت حافظ ضامن شہید وغیرہ تھے، جنھوں نے معرکہ شاملی و تھانہ بھون میں عملی طور پر حصہ لیا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ جب مئی ۱۸۵۷ء کی یہ بغاوت نا کام ہو گئی تو اس جم جماعت علماء کو بھی انگر ریزوں کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا ، حافظ ضامن نے جام شہادت نوش کیا ، حضرت گنگوہی جیل گئے، حضرت نانوتوی روپوش ہوئے اور امیر کارواں مکہ معظمہ ہجرت کر گئے ۔۔
غرض کہ اس جہاد حریت اور انقلابی کوشش کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو ادا کرنی پڑی اور انگریزی حکومت کے ذمہ داروں نے یہ سمجھا کہ مسلمان ہی اس بغاوت کے ذمہ دار ہیں، اسلئے ان کی آئندہ نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور جب دسمبر ۵۷ء کے اخیر تک انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت پر اپنا تسلط قائم کر لیا اور اپنی انتقامی کارروائیوں اور خوں ریزیوں سے تمام ہندوستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو شکست و مایوسی کے غار میں دھکیل دیا تب بر صغیر ہند پر اپنی حکومت کی بالادستی قائم کرنے اور طویل عرصے تک یہاں رہنے کیلئے منصوبہ بندی قائم شروع کی ، سب سے پہلے تعلیم پر انگریزوں کی پالیسی شروع ہوئی جو یہ تھی:
ا – عام طور پر لوگوں کو نا خواند رکھا جائے ۔
۲۔ مسلمانوں کو عیسائی بنایا جائے۔
۳۔ ہندوستانیوں کو لا مذہب بنایا جائے۔ پہلی دو پالیسیوں پر یکے بعد دیگرے عمل ہوتا رہا مگر وہ ناکام رہیں ، گرچہ ان سے بھی باشندگان ہند کو بہت نقصان اٹھانا پڑا .مگراب وہ پالیسی نافذ کی جانے لگی جس سے اسلامی تشخص اور مسلمانوں کی ثقافتی و دینی شناخت ختم ہو سکے،، یہاں لارڈ میکالے،،کی رائے اور منصوبہ بھی پیش نظر رہے :ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون و رنگ کےاعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر ذوق اور فہم کے لحاظ سے انگریز ہو۔“اس پالیسی کا حاصل یہ تھا کہ برطانوی شہنشاہیت کے وفادار غلام پیدا کیےجائیں اور مسلمانوں کو ان کے دین و مذہب سے لا تعلق کر دیا جائے ۔ اسی دوران انگریزوں نے عیسائی پادریوں کی مدد سے ے پورے ہندوستان میں انگریزی جھنڈا لہرانے اور عیسائیت کے غلبے کی مہم جاری رکھی ۔ مسلمان شکست خوردہ تھے، سیاست کے نام پر تحریک ان کے لیے ناممکن ، قوم میں تنظیم ہی نہیں رہ گئی تھی ، ایسی صورت میں اسلام اسلام کی بقاء ، علوم دین کی حفاظت اور مسلمانوں کے تحفظ کی کیا صورت ہو؟(درخشاں ستارے)
ایسے نازک حالات میں دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا جس مغلیہ حکومت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ جب ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد بجھ گیا تو انگریز نے ہندوستان سے اسلام کو نکالنے کا بگل بجا دیا، ہندوستانی مسلمانوں پر مصائب و ظالم کے پہاڑ توڑے گئے تھے، انہوں نے عام طور پر مسلمانوں میں خوف و ہراس اور بے کسی اور درماندگی کا اک ایسا احساس پیدا کر دیا تھا کہ اس کی جانب کوئی فوری مؤثر قدم نہ اٹھایا جاتا تونہ معلوم آج مسلمانوں کی حالت من حیث الاسلام کیا ہوتی ، امراء کی جاگیریں مضبط کر لی گئی تھیں، فاتح انگریز کے جوش انتقام نے مسلمانوں کے صرف ملک ودولت ہی پر اکتفا نہیں کیا تھا۔ بلکہ مسلمانوں کے تہذیب و تمدن علم وفن، اور کمالات انسانیت کو برباد کرنے اور مٹانے میں تا حد امکان کوئی کسرانہوں نے نہیں چھوڑی، چوں کہ ۱۸۵۷ء کی تحریک کی قیادت غیور علماء کے ہاتھ میں تھی، اس لئےانگریز نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ہزاروں علماء کو تختہ دار پر چڑھا دیا بڑے علماء داردر سن کی بھینٹ چڑھ گئے ، ۱۸۶۵ء میں” پٹنہ” تھا نیسر”اور "لاہور” کے متعدد علماء ، اشراف اور تجار پرمقدمہ قائم کیا گیا، "مولانا یحییٰ علی” مولانا احمد الله عظیم آبادی” مولانا عبد الرحیم صادقپوری” اور مولاناجعفر تھانیسری”کو انڈومان روانہ کیا گیا، "پٹنہ”میں خاندان صادق پور کی تمام جا ئداد ان کو ضبط کر لیا گیا۔عمارتیں گرادی گئیں، اور ان پر ہل چلواد یا گیا، اور ان کے مقبروں کو تباہ و بربادکر دیا گیا۔ دوسری جانب علم دین کے مراکز کو اجاڑ نا شروع کر دیا، مدارس و خانقاہ تباہ و برباد کر دی گئیں تھیں، مدارس وخانقاہوں کے اوقاف ختم کر دیئے گئے تھے ، اس وقت یوروپ کی عیسائی مشنریاں ایک سیلاب کی مانند ہندوستان کی طرف متوجہ ہو ئیں اور یہاں کے ناواقف اور بھولے بھالے مسلمانوں کو دان فریب میں مبتلا کرنے میں مصروف ہو گئیں ، اس وقت "مؤرخ” قلم روک کر ظاہری حالات سے یہ دوٹوک نتیجہ اخذ کر رہا تھا کہ اب شاید ہندوستان میں اسلام کا مستقبل تاریک ہو جائے گا، یہاں کی مسجدیں ویران ہو جائیں گی ٹوپی اور داڑھی کا چلن خواب و خیال بن جائے گا ، اور قال اللہ اورقال الرسول کی صدائیں سننے کو ہندوستان کے بام و در ترس جائیں گے۔
الغرض شاہان مغلیہ کے اقتدار کے خاتمے اور انگریزی حکومت کے قیام کے بعد ہندوستان کے مسلمان اپنی تاریخ کے بڑےہی نازک دور سے گذر رہے تھے، اس وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان میں جدید تعلیم اور اس کے اثرات کے سامنے مذہبی تعلیم اسلامی احکام واعمال و شعائر دین کی روشنی کم یا کم از کم مدھم ضرور ہو جائےگی، مگر مشیت ایزدی ان کو باقی رکھنا چاہتی تھی ، اور اس کیلئے دینی حرارت کی ضرورت تھی، جو ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی کا سر چشمہ رہی ہے ۔
ان یاس انگیز حالات میں کچھ اللہ کے بندے راتوں میں بارگاہ خداوندی میں سسک سسک کر ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور دین برحق کے تحفظ کے اسباب فراہم ہونے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ اللہ ارحم الراحمین کو ان مانگنے والے مخلص ترین بندوں کے انداز طلب پر ترس آیا اور ابھی ” وتی ” اجڑے ہوئے دس سال بھی نہ گزرے تھے کہ حسرت ویاس کے کھٹا ٹوپ اندھیرے میں "دیوبند” کی بستی میں دارالعلوم کی شکل میں ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸۶۷ میں ایک چراغ روشن ہوا پھر اس ایک چراغ سے چراغ پر چراغ جلتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا بر صغیرعلم دین کی روشنی سے منور ہو گیا۔ جن کا نعرہ تھاکہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں اور انگریزوں کے تسلط نے جس خطرہ کو جنم دیا تھا الحمد للہ کے دارالعلوم کے قیام نے اس خطرہ کو دور کردیا دارالعلوم دیو بند نے ملت اسلامیہ کی اصلاح و تربیت میں اہم کردار ادا کیا دعوت وارشاد اور وعظ و تبلیغ کے بڑے، جلسوں کو رونق بخشی،جن کا فیض آج پوری دنیا میں موجود ہے یہ اسی دارالعلوم کا دین ہے کہ ہمارا ملک آزاد ہے اور آزادی کی گولڈن جبلی منائی جاتی ہے