جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!

جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!

تحریر:جاوید اختر بھارتی

محترم قارئین کرام: کرنی کرے تو کیوں کرے اور کرکے کیوں پچھتائے ،، بوئے پیڑ ببول کا تو آم کہا سے کھائے ،، تم جو نیکی آج کروگے اس کا صلہ کل پاؤگے جیسا پیڑ لگاؤگے ویسا ہی پھل پاؤگے ،، اندازہ لگ گیا ہوگا کہ کس موضوع پر بات ہونے والی ہے ،، آجکل سوشل میڈیا پر خوب ویڈیو وائرل ہورہی ہے اشتہار پر لکھ دیا جاتاہے کہ جلسہ یا جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسٹیج پر جو نظارہ ہوتاہے اس سے میلادالنبی و سیرۃ النبی کا دور دور سے واسطہ نہیں ہوتا کسی کسی جلسے میں نقیب صاحب اتنا وقت ضائع کردیتے ہیں کہ ان کی پوری نقابت پر اور علماء کرام کی تقاریر کے اوقات پر غور کیا جائے تو نقیب صاحب ایک مقرر کی تقریر کا وقت خود استعمال کرجاتے ہیں نعرہ لگواکر، سبحان اللہ کہوا کر ، لطیفہ سناکر، پیروں بزرگوں کا واسطہ دے کر اور سامنے بیٹھی عوام کو کیا کہا جائے سامعین یا شائقین یا تماشگین اس بات کا خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہیں تو تعریف کی جاتی ہے کہ ناظم اجلاس بڑے ہی حاضر جواب ہیں بڑی شاندار نظامت کرتے ہیں ،، بالکل اسی طرح جیسے شادی کارڈ پر نکاح مسنون چھاپ کر بے شمار کام سنت کے خلاف کیا جاتا ہے دو دو چار چار سو آدمیوں کی بارات لیکر لڑکی باپ کے دروازے پر پہنچا جاتاہے ، کھانا کھایا جاتاہے ، ناچ گانے بھی ہوتے ہیں ، آتش بازیاں بھی ہوتی ہیں ، جہیز کا مطالبہ بھی ہوتاہے ، لڑکی کے باپ کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا جاتاہے ،، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا واقعی ہم اسی کو نکاحِ مسنون سمجھتے اور مانتے ہیں  نکاح میں سوائے خطبہ کے دوسرا کوئی کام تو سنت کے مطابق نظر نہیں آتا اور اب تو حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ جس اسٹیج سے شادی بیاہ کو آسان بنانے کا مشورہ و پیغام دیا جاتا تھا وہ اسٹیج بھی کافی مہنگے ہوچکے ہیں ، وہ جلسے بھی انتہائی خرچیلے ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل کر سامنے آیا کہ بہت سے علاقوں میں ائمہ مساجد نے خود کشی تک کرڈالی،، دوسری جانب کئی کئی بہنوں اور بیٹیوں نے ایک ساتھ خود کشی کرلی پھانسی کے پھندے سے جھول گئیں اتنا ہی نہیں ارتداد کی لائن لگی ہوئی ہے شادی بیاہ نکاح کو آسان بنانے کا مشورہ و پیغام دینے والوں نے خود جب بارات میں شامل ہونا شروع کردیا تو آتش بازیوں کو روکنے کی جرأت گنوا بیٹھے ، ان کے سامنے جہیز کے سامانوں کی نمائش لگائی جانے لگی وہ دیکھ کر بھی منع کرنے کی طاقت گنوا بیٹھے نتیجہ یہ ہوا کہ نصف ایمان کے درجے والی تقریب پر لچے لفنگوں اور لذت اندوزی و لہو ولعب میں مست رہنے والوں نے اس بابرکت تقریب کو ہیک کرلیا اور شادی بیاہ اور نکاح کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ،، مشاعروں کی طرز پر جلسوں کی نظامت شروع کردی گئی چٹکلا سنایا جانے لگا ، ہنسنے ہنسانے کا راستہ اختیار کیا گیا کئی کئی سینٹی میٹر کے القابات سے علماء و مقررین کی شان میں استقبالیہ نعرہ لگایا جانے لگا تو بہت سے علماء نے اولیاء کرام و بزرگانِ دین کے نام سے منسوب فرضی کہانیاں سنانا شروع کردیا کرامتوں کے نام پر فرضی اور من گھڑت روایات بیان کرنا شروع کردیا اللہ کی مخصوص صفات انبیاء کرام پر اور انبیاء کرام کی مخصوص صفات اولیاء کرام پر فٹ کرنا شروع کردیا اسٹیج پر بیٹھے علماء کرام کی خاموشی اور عوام کی لطف اندوزی نے منبر رسول کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا اور جلسے کو نمائش فیشن اور سیر وتفریح کا سامان بناڈالا ابتدائی دور میں جلسے کی نظامت کے نئے انداز پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایک ناظم اجلاس ایک مفتی کو بھرے اسٹیج پر کہہ رہا ہے کہ جب فلاں صاحب اس جلسے میں مدعو تھے اور آپ واقف تھے تو آپ کو جلسے میں یا اسٹیج پر آنا ہی نہیں چاہئے تھا یعنی ہٹ دھرمی اور بے حیائی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور جلسے کو ، جلسے کے نظام کو اصول وضوابط کو نقیبوں اور گویوں نے ہیک کرلیا اب کچھ علماء کرام کو احساس ہوا کہ ارے پانی تو سر سے اونچا ہوگیا نعت خواں تو نوٹ خواں ہوگئے اور دوران تقریر مجمع منتشر اور دوران نعت خوانی پورا مجمع پنڈال میں ،، اچھل اچھل کر داد دی جارہی ہے اسٹیج پر کسی کو حال آرہی ہے اور پیسہ اس انداز سے دیا جاتا ہے کہ جیسے جلسہ نہیں مجرا ہورہاہے،، معاف کرنا تلخ ضرور ہے لیکن یہی سچائی ہے کہ جلسے کی شبیہ بگاڑنے کا کام سب سے پہلے نقیبوں نے کیا ہے جلسے کے اناؤنسروں نے کیا ہے کسی خطیب کو مائک پر بلانے سے پہلے کسی شاعر کو یہ کہہ کر مائک پر بلانا کہ ذرا ماحول بن جائے تو پھر سوال تو پیدا ہوتاہے کہ کیسا ماحول بنانا چاہتے ہیں اور جب شاعر مائک پر آتا ہے تو کبھی ٹرین کی آواز کی طرح چھک چھک آواز نکالتا ہے ، کبھی ہارمونیم و بانسری کی آواز نکالتا ہے اور کہتا ہے کہ کہو سبحان اللہ آگے کہتاہے کہ اس بزم میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں ،، شرم وحیاء گھول کر پینے والوں جب یہ مانتے ہو کہ اس محفل میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں تو پھر گانے باجے کی دھن پر نعت پاک پڑھنے کی ہمت کیسے ہوئی کیا یہ نبی پاک کی شان میں گستاخی نہیں ہے توہین رسالت نہیں ہے ؟؟ جبکہ کسی سنگر نے نعت نبی کی دھن پر گانا نہیں گایا ہے لیکن خود کو حضرت حسان کی سنت کی ادائیگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ساری حدیں پار کردیں بلکہ واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نقلی پیروں اور روٹی توڑ فقیروں نے خانقاہوں کو ہیک کرلیا ، نقیبوں، پیشے ور مقرروں اور پیشے ور نعت خوانوں نے جلسہ ہیک کرلیا ،، پیشے ور نقیبوں نے غزل ہزل کے مزاحیہ مشاعروں کی نظامت کے طرز پر جلسوں کی نظامت شروع کردی ، پیشے ور مقررین نے جلسے میں فرضی کہانیاں اور من گھڑت روایات بیان کرکے اور بزرگان دین کو آلہ کار بناکر منبر رسول کے تقدس کو پامال کرنا شروع کردیا اور وعظ ونصیحت کو ایک تجارتی فن سمجھ لیا اور شاعروں کی بڑی تعداد نے جلسہ سیرۃ النبی و جشن عیدمیلادالنبی کے مبارک اسٹیج کو دنیاوی رنگین محفلوں کی طرح مظاہرہ شروع کردیا اور ایک ایک رات کی نعت خوانی کا ریٹ مقرر کرنا شروع کردیا کیا یہی حضرت حسان کی سنت ہے ؟ راقم الحروف نے دوسال قبل ایک مضمون لکھا تھا ( اب تو جلسوں کی بھی اصلاح ضروری ہے) کے عنوان سے تو کچھ لوگوں نے بڑی تنقیدیں کی تھیں لیکن جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج کے جلسوں میں وہ سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے قابل مبارکباد ہیں علامہ مفتی شہریار صاحب جنہوں نے جرأت کا اظہار کیا اور اسٹیج پر ہی زوردار مخالفت کی یہی کام اگر ابتدائی دور میں کیا گیا ہوتا تو آج جلسہ نمائش و میلے میں تبدیل نہیں ہوا ہوتا ،، بہر حال اب بھی وقت ہے جاگنے کا جلسے کے اصول وضوابط مرتب کرنے کا ،،سب سے پہلے تو ریڈیمیڈ نظامت کا سسٹم ختم کیا جائے اسٹیج پر موجود علماء کرام میں سے صدر جلسہ کے ذریعے کسی کو نظامت کے لئے مامور کیا جائے ، انتہائی عقیدت و احترام و محبت اور ادب کے ساتھ نعت خوانی کے لئے پابند کیا جائے اور ایک دو سے زیادہ نعت خواں ہوں تو تلاوت قرآن کے بعد ایک نعت پڑھاکر تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جائے اور رات کے 12 بجے تک تقاریر مکمل کیا جائے اور اس کے بعد بھلے ہی نعت خوانی کرایا جائے ،، آج جلسہ اور شادی بیاہ دونوں بہت مہنگے ہوچکے ہیں اور دونوں کو سستا کرنے کی مہم چلائی جائے ورنہ مدارس اسلامیہ خستہ حالی کا شکار ہوسکتے ہیں ، لوگ اپنے بچوں کو عالم دین نہ بناکر نعت خواں بنانا شروع کرسکتے ہیں اور جاہل مریدوں و جاہل مجاوروں پر بھی شکنجہ کسنا ضروری ہے ورنہ جہالت بڑھتی ہی جائے گی اور اندھی تقلید کا بول بالا ہو جائے گا پھر اصلاح معاشرہ بہت مشکل ہو جائے گا ،، جو بھی علماء کرام اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، غلط کو غلط کہہ رہے ہیں حق بولنے حق سننے اور حق پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ان علماء کرام کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ان کے بازوؤں میں طاقت عطا فرمائے ان کی عمروں میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین –

       

جاوید اختر بھارتی (رکن مجلس شوریٰ مدرسہ فیض العلوم) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے