قیادت اور سیاست!
فکرونظر-10
✍️خالدانور پورنوی،المظاہری
سیاست؛جذبات سے کی جاتی ہے،نعروں سے کی جاتی ہے،بھیڑ دیکھی جاتی ہے،اور اسی پر کامیابی کا انحصاربھی ہوتاہے،لیکن قیادت جذبات سے نہیں،نعروں سے بھی نہیں،بھیڑ سے بھی نہیں،بلکہ بہت کچھ سوچ،سمجھ کر کی جاتی ہے،اول میں یہ دیکھاجاتاہے کہ دنیاکدھرجارہی ہے،جبکہ قیادت میں ہواکے رخ کوموڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،اس لئے عام طورپر سیاسی لوگ ،عام وخاص میں بہت مقبول ہوتے ہیں،جبکہ قائدین کی بہت سی باتیں ظاہرِحال کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے ، انہیں گالیاں بھی کھانی پڑتی ہیں۔
کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ ہماری ان باتوں سے اتفاق بھی کریں،لیکن ١٩٤٧میں جامع مسجد دہلی میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کی،کی گئی تقریر کو پڑھیں گے تو یہ بات آسانی سےسمجھ میں آجائے گی،وہ کہتے ہیں: ‘ ‘ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘آگے وہ کہتے ہیں: ‘ ‘ میرے بھائی میں نے ہمیشہ سیاسیات کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور کبھی اِس پُر خار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لئے ہوتی ہیں لیکن مجھے آج جو کہنا ہے میں اُسے بے روک ہو کر کہنا چاہتا ہوں۔ متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔ مذہبی اختلافات کو جس ڈھب سے ہوا دی گئی اُس کا لازمی نتیجہ یہی آثار و مظاہر تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بدقسمتی سے بعض مقامات پر ابھی تک دیکھ رہے ہیں ‘ ‘۔امام الہند کے ساتھ جمعیۃ علماء ہندکے تمام ہی اکابرتھے،جنہوں نے ملک کی آزادی میں اہم کردارپیش کیاتھا،مگر جناح کے مقابلے میں ہمارے ہی لوگ ان کی پگڑیاں اچھال رہے تھے، سڑکوں، چوراہوں میں انہیں ذلیل ورسواکیاجارہاتھا،چونکہ انہیں یہ لگتاتھاکہ یہ لوگ کانگریس کی غلامی کررہے ہیں،مسلم لیگ کا ساتھ نہ دے کرگناہِ عظیم کو انجام دے رہے ہیں،جمعیۃ علماء ہند اور اس کے اکابر میدان کارزارمیں ڈٹے رہے،یہاں تک تقسیم کے فارمولے پر انہوں نے دستخط نہیں کیا،آج ستر سال گذرنے کے بعد ہم پوری مضبوطی سےکہتے ہیں کہ ہمارے اکابرکا فیصلہ نہایت ہی دانشمندانہ تھا،اسی لئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ملک ہماراہے،ہم تقسیم کے اس وقت بھی مخالف تھے اور آج بھی اسی پر قائم ہیں۔
جبکہ دوسری طرف جناح تھے،جن کے سایہ کے نیچے سرمایہ داروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع تھی،وہ انہیں اپنامحسن ،ہمدرد،ماویٰ،ملجا سمجھ رہے،زندہ بادکے نعروں سے ان کی واہ واہی ہورہی تھی،لیکن اس کا نقصان کس کوہوا؟کمزورکون ہوئے؟تعدادمیں کمی کدھرہوئی؟تقسیم کا داغ کس کے چہرہ پرلگا؟آج تک کون موردالزام ٹھہرائے جارہے ہیں؟کبھی رات کی تنہائیوں پر اس پر غورکیجئے،اور مولاناابوالمحاسن سجادؒ نے اس موقع سے جناح کو جونصیحت آمیز خط لکھاتھا،اس کو پڑھئے،بہت سی گرہیں کھل جائیں گی !
*پولیٹیکل جتنی بھی پارٹیز ہوں،بھارت کے آئین کے اعتبارسے ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے پا س اپنے آپ کو یہ ثابت کریں کہ وہ سیکولر ہیں ، اور سیکولرازم کے اصولوں پر ہی بھارت کے آئین کو ترتیب دی گئی ہے، کئی طرح کے حالات پیش آنے کے باوجود آج اگرہم مضبوطی سے عدالت میں کھڑے ہوتے ہیں تو بنیادیہی سیکولرازم ہوتے ہیں!*
اس بات کو یادرکھئے!کہ ہمارے لئے قیادت بھی ضروری ہے،اور سیاست بھی،مگرنعرہ تکبیر کے نام پر ،یاخالص اسلام کے نام پر سیاست کی تائید ؛ اگربھارت جیسے ملک میں،جمعیۃ علماء ہند جیسی مذہبی جماعت کے اسٹیج سےکی جائے گی،تو اس کاانجام انتہائی خطرناک ہوگا،یہ ایساہی ہے کہ اگرتمام مسجدوں سے خالص اسلام کے نام پر کسی سیاسی پارٹی کا اعلان ہوجائے،تو پھر ملک میں دوپارٹی رہ جائے گی،یاتو مسلم یاہندو،اور دوسری طرف کے لوگ تو یہی چاہتے ہیں۔
*اسدالدین اویسی صاحب ؛ایک بہترین سیاست داں ہیں،پارلیامینٹ میں ان کی عالمانہ تقریروں نے تمام مسلمانوں کو حوصلہ دیاہے،بعض مسئلے میں اختلافات ہوسکتے ہیں ،مگر مجموعی طورپر ان کی باتیں بہت ہی خوبصورت،جامع،مدلل،مسکت اور وقت کی نزاکت کے اعتبار سے بہت ہی اہم اور قیمتی ہوتی ہیں،وہ حیدرآباد سے ایم پی ہیں،لیکن پورے ملک کے مسلمانوں اوردبے،کچلے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہیں،ان کا انداز اتناخوبصورت ہوتاہے کہ دیگرلوگوں کے لئے بھی کشش کا ذریعہ بن جاتا ہے،مگر جب بات مجلس اتحاد المسلمین کے پورے ملک کے سیاسی اکھاڑہ میں اترنے کی آئے گی، تو کوئی بھی مذہبی جماعت ،اپنی جماعت کے اسٹیج سے تائید وحمایت کا اعلان نہیں کرے گی،بصورتِ دیگر،دیگرلوگوں کے لئے راہیں ہموار کرنے کا ذریعہ ہوگا۔*
*بہت سے لوگ کئی طرح کی باتیں کرتے ہیں* ،وہ کہتے ہیں ،جمعیۃ علماء ہند ہی وہ جماعت جس نے ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک نہ خود مسلم پارٹی بنائی،اورنہ کسی کوبنانے دیا،یہ لوگ دراصل تقسیم ہند کی وجہ سے ملک میں کس طرح کے حالات پیداہوگئے تھے،اور اس موڑپر جمعیۃ علماء ہند کا کردارکیاتھااس سے ناواقف ہیں۔ ١٩٤٩ میں،لکھئومیں جمعیۃ علماء ہند کے سولہواں اجلاس عام کے موقع سے حضرت شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی ؒ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاتھا:بہت آسان تھاکہ جمعیۃ علماء ہند سیاست کا بھی دعویٰ کرتی رہتی، اور جداگانہ سیاست کے عادی کروڑوں مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کرلیتی،مگریہ مسلمانوں کے حق میں خیرخواہی نہ ہوتی،اس کے حقیقی معنی یہ ہوتے کہ زہرکے پیالے کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی جارہی ہے،اور دودھ کی نمائش کرکے سم قاتل ان کے حلق کے نیچے اتاراجارہا ہے،ملک کی ایک خیرخواہ جماعت ہرگز ایسانہیں کرسکتی تھی،کیامشترک انتخاب کی موجودگی میں کسی اقلیت کے لئے یہ مفید ہوسکتاہے کہ وہ سیاسی پلیٹ فارم جداگانہ بنائے؟ ‘ ‘
*جمعیۃ علماء ہند کے قائدوصدر محترم جناب مولاناسیدمحمود اسعدمدنی صاحب سے کئی باتوں میں اختلاف کیاجاسکتاہے؟اور اختلاف رائے کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے،لیکن ان کے بیان کی وجہ سے،جس طرح ان کی ذات پر حملے کئے جارہے ہیں،ان کے ناموں کو بگاڑاجارہاہے،جمعیۃ علماء ہند کے حوالہ سے جس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں،مذہب اسلام تو بہت دور،کسی بھی مہذب سماج میں اس کی گنجائش نہیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔*
*اگرکسی بات پر کسی سے اختلاف بھی ہوتوان کی تمام خدمات کو بھول جانا،انہیں ہدف تنقید کا نشانہ بنانے کا جواز کہاں سے پیداہوجاتاہے،دہلی فسادمیں ہزاروں فسادزدگان کے گھروں کو بسانے سے لے کر جیل کی تاریک کوٹھریوں سے انہیں نکال کر باعزت بری کرنے تک،نوح میوات سے لے کرملک کے مختلف حصوں میں ہورہے بلڈوزر کی کاروائی پر روک لگوانے تک کے لئے ودیگرہزاروں صفحات پر مشتمل ان کے کارنامے ہمیشہ یادکئے جائیں گے۔*
یہاں دوباتیں الگ الگ ہیں،دونوں کو الگ الگ انداز سے سوچا جاناچاہئیے،ایک تو اویسی صاحب ،اورنمبر٢ مجلس،اسی طرح مجلس کا صرف حیدرآبادوتلنگانہ میں ہونا،اور دوسرا ملک سے باہرکسی بھی ریاست میں جاکرالیکشن لڑنا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اویسی صاحب بہت ہی باصلاحیت اور جرات مند ایم پی ہیں،اندورون پارلیامینٹ ان کی عالمانہ ،فاضلانہ تقریر سے دیگرلوگوں کو بھی خاموش کیاہے،مگر ان کی پارٹی کا حیدرآبادکے علاوہ ریاستوں میں الیکشن لڑنےکے حوالہ سے ،محض اسلام کے نام پر،بنی اس پارٹی کی حمایت وتائیدکا سوال ہوگا،تو جمعیۃ علماء ہند کبھی بھی واضح اورظاہری اندازمیں حمایت نہیں کرسکتی ہے،یہی قیادت کی پالیسی ہے،ہاں اس میں بھی امکان موجودہے،کہ جمعیۃ سے جڑاکوئی شخص،انفرادی طورپر زمینی سطح پر اس کے لئے کام کرے،جیساکہ اس سے قبل بھی اس پر عمل کیاگیاہے،مگر مذہبی جماعت کی حیثیت سے اگراعلان وتائیدہوجائے تو پھر دیگرلوگوں کے لئے مزید راہیں کھل جائیں گی!
*ہاں! یہ مستقل موضوع ہے کہ آج کے ماحول میں مسلمان کیاکریں؟کیاآج جداگانہ سیاست کی اجازت دی جاسکتی ہے،یانہیں؟اس کے نقصانات کیاہیں،اورفوائدکتنے ہیں؟اگر جمعیۃ علماء ہند کی پالیسی سے اتفاق نہیں ہے تو،ملک میں دیگرتنظیمیں بھی ہیں،بڑے بڑے دماغ بھی ہیں،اس موضوع پر پھر سے غوروفکرکریں،اور محض نعرہ کی بنیادپر نہیں زمین سے جڑکراس پر محنت کریں، ورنہیں تو ہم کئی جگہوں پر انجام دیکھ چکے ہیں،خوب ہنگامہ کیاکہ جیت رہے ہیں،لیکن شکشت ہی ہوئی؟اس کی وجہ جانکارحیرانی ہوئی کہ جنہوں نے ازیں قبل ان کے لئے سب کچھ قربان کیاتھا،ان کو بھی اپنے ساتھ شامل نہیں کرسکے،ہارکے بعد بدنام جمعیۃ کے احباب!*
▪️▪️▪️▪️▪️
*ایڈیٹر ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ*
*وترجمان ملت ڈاٹ کام*
صحیح بات کہی آپ نے جناب اور وضاحت سے سمجھایا ان باتوں کو اس وقت عام کرنا چاہئے
ماشاءاللہ بہت خوب عمدہ مضمون ہے
لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ علی الاعلان کسی کی حمایت اور تائید نہیں کر سکتے ہیں تو علی الاعلان انکی مخالفت بھی نہیں کر نی چاہیے
اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے تلک الایام نداولہا بینناس حالات ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے جب حالات ایک جیسا نہیں رہتا ہے تو ہماری پالیسی بھی بدلنی چاہیے اپنے پرانے موقف پر ثابت رہنا ابھی کے حالات کے تناظر میں مناسب ہے ؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جس کو ہم سیکولر پارٹی کہتے ہیں انکا رویہ کیا ہے اور بھی بہت ساری باتیں ہیں ان سب چیزوں کو دیکھ کر آج کے دوڑ میں ہماری کیا زمہ داری بنتی ہے اس پر بھی تفکر کی ضرورت ہے
جس بیان کی مخالفت کی گئی ہے،اس کی مخالفت کی ہی جانی چاہئیے،ورنہ ملک بھر میں یہ تاثر ہوگا کہ مسلمانوں کی یہی آوازہے_