*مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی و سیاسی خدمات اور اس کے دور رس اثرات…*
جید عالم دین، عظیم مفسر، بڑے مؤرخ، انشاء پرداز ادیب، صاحب فکرونظر، جنگ آزادی کے عظیم مجاہد، یکجہتی کے علمبردار، محب وطن سیاست دان، دور اندیش ماہرتعلیم، وسیع المطالعہ ،فقید المثال، دیندار، تہجد گزار حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی ولادت 11 نومبر 1888 میں مکہ معظمہ میں ہویی،
مولانا آزاد کے والد اصلا ہندوستانی تھے، والدہ مدینہ منورہ کی تھی 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ملک کے حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے، مجاہدین آزادی کو پھانسی دی جارہی تھی، قیدو بند میں ڈالے جا رہے تھے، یا پھر وہ جلاوطن ہونے پر مجبور تھے، ان پر آشوب حالات میں مولانا آزاد کے والد بھی حجاز ہجرت کرگیے تھے،
1890 میں اہل کلکتہ کے اصرار پر مولانا آزاد، ان کے والد مع اہل وعیال کلکتہ تشریف لائے اور وہیں متوطن ہو گئے، مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، پھر جامعہ ازہر مصر چلے گئے، مولانا انتہائی ذہین وفطین تھے، 14 سال کی عمر تک آپ نے مشرقی علوم پر دسترس حاصل کر لیا تھا، 15 سال کی عمر میں آپ نے لسان الصدق نام کا جریدہ نکالنا شروع کر دیا تھا،،،
13 جولائی 1912 میں آپ نے الہلال جاری کیا، عمر کی چوبیس بہاریں گزر پایی تھیں، مولانا اپنے دور شباب ہی میں ایک عظیم انشاء پرداز، سحربیان خطیب ،عدیم المثال صحافی بن کر پورے ہندوستان میں مشہور ہو گیے، الہلال ہر طبقے کی زبان، آزادی ہند کے متوالوں کے دلوں کی آواز بن گیا تھا، الہلال کی52 ہزار سے زائد کاپیاں شایع ہوتی تھین، ایک غلغلہ تھا جس کی باز گشت چاروں سمت گونج رہی تھی، الہلال خدا کی الہامی کتاب قرآن کریم کی روشنی میں جذبہ آزادی کو مہمیز کرنے، قومی اتحاد کی فضاء کو مزید خوشگوار بنانے، وطنی محبت کی چنگاری کو شعلہ بار کرنے، انگریزی حکومت کی ظالمانہ استعماریت، اور ہر طرح کی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا ایک مضبوط بن گیا تھا،،، بالآخر انگریز حکومت کو مولانا آزاد کے اس انقلابی مہم کی خبر لگی اور پریس ایکٹ کے تحت 1914 الہلال کو بند کر دیا گیا، اس کے بعد مولانا نے البلاغ شایع کرنا شروع کیا، 1916 میں صوبہ بنگال نے مولانا آزاد کو آزادی ہند کی جدوجہد کی پاداش میں صوبہ بدر کر دیا، پنجاب، یوپی، بمبی نے پہلے سے پابندی لگا رکھا تھا، مولانا کو رانچی میں پناہ لینا پڑا، لیکن انگریز حکومت نے پانچ مہینے کے بعد وہاں سے قید کر لیا اور آپ نظر بند کر دیے گئے، نتیجتاً البلاغ بھی بند ہو گیا، اس پارہ آتش کی چنگاریاں بھی سرد کر دی گئی…
1920 میں قیدو بند سے رہائی ملی، الہلال اور البلاغ کے ذریعے پورے ملک میں بیداری کی باد بہاری چلی ہویی تھی، ہر طبقے کے لوگوں نے محبت اور احترام سے آپ کا استقبال کیا، مولانا آزاد ایک لیڈر بن کر سامنے آئے، 1921 میں آپ کی ملاقات گاندھی جی سے ہویی، گاندھی کے نظریہ عدم تشدد سے آپ کو اتفاق تھا، مولانا آزاد نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر آزادی وطن عزیز ممکن نہیں،یہی وجہ تھی کہ وہ گاندھی جی، سی آرا داس، پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ملکر ملک کی آزادی کے لیے منصوبہ بندی کی، آپ ان سب کے صرف بارسوخ شریک کار ہی نہیں بلکہ امام فیصل بن کر قیادت کی ذمہ داری کو حسن انجام تک پہنچایا،،،
21 مارچ 1940 کو رام گڑھ میں مولانا آزاد نے کانگریس کی صدارت کا چارج لیا، 15 اگست 1947 کو وطن عزیز کو آزادی میسر ہویی تھی، 1940 سے 1947 کا دور بڑی ہنگامہ آرائی، جدوجہد، ڈپلومیسی ، اور فیصلہ کن دور تھا، اس نازک اور اہم ترین وقت میں مولانا آزاد نے اس کانگریس پارٹی کی صدارت کی اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا جس کانگریس کو مستقبل میں ملک میں حکومت کرنی تھی،
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد صرف کانگریس پارٹی کی صدارت ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ آزادی ہند کے ان آخری ایام کی امامت فرما رہے تھے جن دنوں میں ملک کے مستقبل کے تقدیر کے فیصلے ہونے تھے، مولانا آزاد چھ برس تک کانگریس کے صدر رہے، جنگ آزادی کے تمام مراحل ہندوستان نے آپ کی صدارت میں طے کیے، بقول شخصے ہندوستان کی سیاست کے بڑے عقدے آپ کے ہی ناخن تدبیر سے حل ہویے، غرض کہ جدوجہد آزادی کا وہ مبارک سلسلہ جو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی جہاد کے بعد 1803 سے شروع ہوا تھا وہ مولانا آزاد کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا،،،،
15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہو گیا، نیی ہندوستانی حکومت میں مولانا آزاد وزیر تعلیم بنایے گیے، مولانا آزاد مجمع البحرين تھے، علوم مشرق ومغزب پر آپ کی گہری نگاہ تھی، آزادی ملک کے بعد آپ سے زیادہ کوئی اس کا اہل نہ تھا کہ اسے وزارت تعلیم کے قلمدان سے سرفراز کیا جائے،اس معاملے میں نہرو اور گاندھی آپ کے خوشہ چینوں میں تھے،
1920 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیادی کمیٹی کے آپ ممبر منتخب کیے گئے تھے، 1934 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو آگرہ سے دہلی منتقل کرنے میں آپ کا اہم رول تھا،
وزیر تعلیم بننے کے بعد آپ نے ملک کے تعلیمی سسٹم کو کچھ اس طرح منظم کیا کہ آج تک اس کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہو رہا ہے، آپ نے آیی آیی ٹی کھرک پور کی بنیاد رکھی، 1951 میں انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد ڈالی، 1953 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن( UGC) کی تشکیل سازی کی،
مولانا آزاد کی خدمات جلیلہ اور افکار عظیمہ کو اس مختصر سے مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں، مولانا نے مکمل خلوص کے ساتھ ہندوستان کی خدمت کیا ہے، قومی یکجہتی، ہندو مسلم اتحاد، اسلامی شعایر و اقدار کے تحفظ کی فکر اپنی زندگی کے آخری ایام تک کرتے رہے، بالآخر 25 فروری 1958 کو 69 سال کی عمر میں ہندوستان کے قومی رہنما، عظیم مجاہد آزادی، مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد نے داعی اجل کو لبیک کہا….
آسمان تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستان اس گھر کی نگہبانی کرے…
از
*شمیم ریاض ندوی…*
*محرک : مجلس علماء ملت کشن گنج بہار*