*ایسے تھے دادا جانؒ*

*ایسے تھے دادا جانؒ*

(علم دوستی ۔ 03)

علم سے محبت انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور اسے نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ دادا جان، مکھیا محمد کلام الدین صاحبؒ (مچھیلا)، ایک علم دوست شخصیت تھے۔ اگرچہ ان کی رسمی تعلیم دسویں جماعت تک ہوئی تھی، مگر وہ اردو، ہندی اور انگریزی میں روانی کے ساتھ پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ قرآن مجید کے پارۂ عم کی تمام چھوٹی سورتیں انہیں حفظ تھیں، اور ان کی تلاوت کی آواز میں ایک خاص کشش تھی۔ ان کی قرأت اتنی خوبصورت ہوتی کہ سننے والوں کو یہ گمان ہوتا جیسے وہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل ہوں۔

انہیں کتابیں جمع کرنے کا خاص شوق تھا۔ کسی جلسے یا اجتماع میں شرکت کرتے تو وہاں سے ضرور کوئی نہ کوئی کتاب ساتھ لے آتے۔ حتیٰ کہ جب وہ سفرِ حج پر گئے تو واپسی پر اپنے سامان کے ساتھ دو تین بنڈل کتابیں بھی لائے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر وہ خود ان کتابوں سے استفادہ نہ کر سکیں، تو آنے والی نسلیں ضرور فائدہ اٹھائیں گی۔ اسی طرح کاغذات اور دستاویزات کو بھی بڑی ترتیب اور حفاظت سے رکھنے کا خاص خیال تھا، جو ان کی منظم طبیعت اور ذمہ داری کا مظہر تھا۔

دادا جان کے کمرے میں ایک میز ہمیشہ رکھی رہتی تھی جس پر کتابیں، رسائل، اخبارات، جرائد کے ساتھ ایک ڈائری اور قلم موجود ہوتے تھے۔ ان کے مطالعے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مختصر کتاب، رسالہ یا جریدہ شامل رہتا۔ دورانِ مطالعہ وہ اہم حصوں پر نشان بھی لگاتے تھے۔ ان کے پاس ایک ریڈیو بھی تھا جس پر وہ ملکی و بین الاقوامی خبریں، انٹرویوز اور مختلف پروگرام باقاعدگی سے سنتے۔ یہ عادت ان کے علمی ذوق، تجسس اور دنیا کے حالات سے جڑے رہنے کی خواہش کی عکاس تھی ____ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم سے محبت انسان کی شخصیت کو سنوارتی ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک قیمتی ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔ یہی ایک کامیاب اور بامقصد زندگی کی پہچان ہے۔

تحریر: عامر کلامؔ
17 نومبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے