ملک کے لئے ہماری قربانیاں ناقابل فراموش ہیں

ملک کے لئے ہماری قربانیاں ناقابل فراموش ہیں:ارشد حبیب قاسمی
معہد عائشہ للبنات ڈومریا ارریہ میں پرچم کشائی کی گئی_
ارریہ،۱۵اگست

گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی معہد عائشہ للبنات ڈومريا رانی گنج ارریا بہارمیں78ویں یوم آزادی کا جشن منایا گیا، جس میں طلبہ،طالبات ،اساتذہ کرام کے ساتھ، مہمان کرام اور محلہ کے موقر دانشوران نے شرکت فرمائی، وقت مقررہ کے مطابق جناب غیاث الدین صاحب کے ہاتھوں پرچم کشائی کی گئی، اس کے بعد بچوں نے ترانہ گنگنایا،جن گن من۔محمد اسد اسرار الحق اور محمد ساجد نے گنگنایا ۔
سارے جہاں سے اچھا شاہین صالحہ اور سنجیدہ نے گایا۔ پیارا وطن ۔چشتی نے جس زمیں پہ تنزیلہ والنہا پروین اور رقیہ نے پیش کیا۔ حق سے کہتے ہیں تو ہے ہمارا بھارت منتشا اور نازش اور ثنانے پیش کیا۔ شہیدوں کی امانت ہے ترنگا میرے بھارت کا۔فیفا اور نسا پروین نے گنگنا۔ جان بھارت پہ دینے کو تیار ہیں ہم وفادار ہیں ہم وفادار ہیں۔ ناصیہ و عافیہ نے گنگنایا۔ میرے پیارے وطن تو سلامت رہے ناظرین و شفانے گنگنایا۔ نظم بھارت کی شان طیبہ تسنیم نے گایا۔
معہد کی ایک بچی نور افشاں نے ازادی کے موضوع پر بہترین تقریر کی
اور ایک اور بچی حنا پروین بنت جناب عبدالغفار صاحب نے جنگ ازادی میں مسلمانوں اور علمائے کرام کی کی قربانی پر ایک پرمغز تقریر پیش کیا، اس موقع سے معہد کے ایک استاد حافظ و قاری جناب مطیع الرحمن صاحب نے حاضرین کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور جشن آزادی کی مناسبت سے علماء اور برادران وطن قربانیوں کو پیش فرمایا۔ معہد عائشہ للبنات کے نگراں حضرت مولانا ارشد صاحب قاسمی نے یوم آزادی پر اپنے قیمتی نکات کو پیش کرتے ہوئے کہا،آزادی کی جنگ کی تاریخ میں رد و بدل آزادی کے بعد سے ہوتی رہی ہے، لیکن اصل تاریخ جو آزادی ہند کی ہے ، وہ 1754 سے ہے۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں نے 1754 ہی سے ملک کی آزادی کے لیے جنگ شروع کر دی تھی، تاریخ کی سچائی کو بتاتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ 1754 سے لے کر 1857 تک صرف مسلمانوں نے ہی جنگ آزادی میں اپنا حصہ لیا لیکن 1857 سے ہمارے اسلاف اور علماء کرام نے عام ہندوستانی اور برادران وطن کو بھی اس جنگ میں شامل کیا پھر بھی قیادت ہمارے ہاتھ ہی میں تھی، 1857 سے لے کر 1930 تک یہ قیادت ہمارے ہاتھ میں رہی پھر اس کے بعد کانگرس کو یہ قیادت سپر کردی گئی۔
1857 کی جنگ آزادی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ دو لاکھ مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے جس میں ساڑھےاکیاون ہزار علمائے کرام ہی تھے۔بہرحال آج ہماری اس تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس تاریخ سے ہماری نسلوں کو دور کرنے کی سازش ہو رہی ہے، اس لیے ہمیں تاریخ کی کتابیں پڑھنی چاہیے ،ہمارے اکابر کی یادوں کو تازہ کرنا چاہیے، اور اس کے لیے مسلسل کوشاں ہوناچاہیے۔ انہوں نے کہا: انگریزوں کی غلامی سے اس ملک کو آزاد کرنے میں مسلمانوں نے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی اور اس ملک کو انگریزوں کی چنگل سے آزاد کرایا۔ یقینا ہمارا ملک 1947 میں آزاد ہوا; لیکن آج بھی ہم اس آزادی سے کوسوں دور ہیں، آج بھی ہمارے ساتھ سوتیلا پن کا سلوک کیا جا رہا ہے ،حالانکہ اس ملک کو آزاد کرنے اور اس ملک کے پاسباں ہم ہیں، آج ہمارے ساتھ حکومت سے لے کر سپریم کورٹ تک ہمارے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔
ہم نے اس ملک کو آزادی اس لیے دلائی تھی کہ ہم اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ اس ہندوستان جیسی سرزمین پر گزر بسر نہ کر سکیں، آج ہماری شریعت میں مداخلت کی جا رہی ہے، اور شریعت پر چلنا ہمارے لیے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
شرکائے مجلس میں معہد ہذا کے ماسٹر جناب ماسٹر عامر صاحب۔جناب قاسم صاحب جناب زاہد صاحب جناب تبریز صاحب جناب غیاث صاحب،جناب شفیق صاحب جناب رفیق صاحب جناب قربان صاحب جناب نسیم صاحب و دیگر حضرات شریک رہے،
آخیر میں دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے